شہر بند ہونے کا خوف

کراچی میں یہ افواہ تیزی سے پھیلی کہ شہر بھر میں اسپرے کیا جانے والا ہے اور اس مقصد کے لئے پورا شہر بند ہوجائے گاجیسے ہی یہ افواہ لوگوں تک پہنچی سب راشن جمع کرنے دکانوں پر پہنچ گئے،منٹوں میں آٹا، گھی اور چینی گھروں میں جمع کر لی گئیں۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اس افواہ کی تردید کی ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہر شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے شہر کب بند ہوگا؟ادھر جون تک اسکولوں کی تعطیلات بھی خوف پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔ ذخیرہ اندوزجب چاہیں حکومت کی رٹ ختم کر دیتے ہیں۔اتنے بااثر ہیں کہ وزیر اعظم کی ہدایت پرکی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ پر اسرار طریقے سے راستے میں رکوا دی وزیر اعظم تک نہیں پہنچتی۔ ابھی پہلے خوف میں کمی نہیں آئی کہ خالی گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے پی ایس 5کے سیمی فائنل اور فائنل کے تین میچ بھی ملتوی کر دیئے گئے۔یہ بوکھلاہٹ خوف میں اضافے کا سبب بنے گیاسے ختم کرنے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا۔ ٖڈری ہوئی،سہمی ہوئی حکومت دوسروں کا حوصلہ کیسے بڑھاسکتی ہے؟اس کے ساتھ ہی ٹی وی پر یہ اطلاع بھی مسلسل دی جاتی رہی کہ وزیر اعظم قوم سے خطاب کریں گے۔ہمارے ملک میں قوم سے خطاب بھی کوئی نیک شگون نہیں سمجھا جاتا۔عوام اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ نہ جانے خطاب میں کون سی نئی مصیبت چھپی ہوگی۔یہ خوف ماضی کی غیر یقینی حکمت عملی کی پیداوار ہے۔عوام کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا جاناکافی ہے۔اپوزیشن اور حکومتی نمائندے ایک ہی چھت تلے آستینیں چڑھائے اسپیکر کا گھیراؤ کرکے ایک دوسرے کو جو جلی کٹی سنانا چاہتے ہیں بے دھڑک سنا ڈالتے ہیں۔پاکستان میں اسی کا نام جمہوریت ہے۔نان ایشوز پر گھنٹوں دشنام طرازی اور ایشوز پر مسلسل خاموشی روزمرہ کی کارروائی بن چکی ہے۔وزارت خارجہ کی سابق ترجمان ریٹائرمنٹ کے بعد نہ جانے کیوں عوام کو یہ بتا رہی ہیں کہ نون لیگ کے تاحیات قائد اور تین بار وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے والے سابق وزیراعظم نوازشریف نے وزارتِ خارجہ کو کلبھوشن کا نام لینے اور بھارت کے خلاف کچھ کہنے سے منع کر رکھا تھا۔تب خاموش رہیں اب کلبھوشن کا نام لے رہی ہیں عام آدمی اس رویہ کو کوئی نام نہیں دے سکا۔البتہ بعض اینکر کو ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ہے۔عام آدمی تو ابھی تک اسی ادھیڑ بن میں لگا ہے کہ جس مہنگائی کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سابق حکومت یا موجودہ؟اس لئے موجودہ حکومت کہتی ہے موجودہ حکومت نالائق ہے نا تجربہ کار ہے اسے معلوم ہی نہیں کہ مہنگے داموں گیس کی خریداری کے پندرہ سالہ معاہدے کیسے کئے جاتے ہیں؟ استعمال نہ ہونے والی بجلی کی قیمت کا نام گردشی قرضہ قرار دے کر طویل عرصے تک وصول کرنے کا ہنرکہاں سے سیکھا جاتا ہے؟یہ رموزِ خسرواں ہیں، خسرواں ہی جانتے ہیں۔ماضی میں ایک لیڈر خود کو بھائی کہلاتا تھااور لندن میں رہ کر کراچی پر حکمرانی کیا کرتا تھا، آج کل اپوزیشن لیڈر لندن میں اپنے بھائی کا علاج کرانے میں مصروف ہے۔عام آدمی اس سوچ میں گم ہے؛ پرانا بھائی خیر خواہ تھا یا موجودہ زیر علاج بھائی؟ عام آدمی گزشتہ چالیس برس سے ان منہ بولے بھائیوں کے چہرے پر پریشانی کے سواکچھ اور نہیں دیکھ سکااپنے غم بھولے بیٹھا ہے!کورونا وائرس بھی غیر ملکی روگ ہے اس نے چین میں جنم لیااور بھرپور تباہی مچانے کے بعد یورپ اور امریکہ میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ہر چند کہ پاکستان میں برادر اسلامی ملک ایران سے داخل ہوا لیکن وائرس کا کوئی دین، کوئی مذہب نہیں ہوتامناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو بے قابو ہو جاتا ہے۔چین کی کمیونسٹ حکومت نے احتیاط کی،وہاں مرنے والوں کا تناسب 3فیصد سے کم رہااٹلی اور ایران والوں نے نرمی برتی مرنے والوں کی تعداد خوفناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔اٹلی میں 8فیصد کو چھو رہی ہے، ایران میں بھی لگتا ہے اسی سطح کو چھوئے گی۔پاکستان میں تین ہفتے خیر سے گزرے مگر اب پہلی ہلاکت ہو چکی ہے۔شائد وزیر اعظم اس تناظر میں قوم کو بچاؤ کے مشورے دیں گے؟اس وقت مشوروں سے زیادہ ٹیسٹ کے لئے کٹس (kits) کی ضرورت ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ 5ڈالر فی کٹ لاگت پر ملک میں تیار کی جا سکتی ہیں۔ اب حکومت کی مرضی ہے اس سہولت سے استفادہ کرے یا غیر ملکی کٹس منگوائے۔اسپتال انتظامیہ اپیل کر رہی ہے صحت مند شہری چیک اپ کے لئے اسپتالوں میں نہ آئیں ورنہ مریضوں کے لئے کٹس نہیں بچیں گی۔حکومت کو چاہیئے کہ پنجاب یونیورسٹی کی پیش کش قبول کر لے 200کٹس یومیہ مل جائیں گی۔ابھی کورونا کو اہمیت دی جائے،اسے پھیلنے سے روکا جائے حکومت سے کہیں نہ کہیں اس حوالے سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے ورنہ دو دنوں میں تعداد 30 32 سے اچانک بڑھ کر دو سو سے تجاوز نہ کرتی۔اب تو ہلاکتوں کا آغاز ہوگیا ہے حکومت کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔محکمہ صحت اپنی ذمہ داری پوری کرے الزام تراشی سے جانی نقصان کا ازالہ نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں