تفتان واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ

پاکستان چین میں خوفزدہ کردینے والے کورونا وائرس کی تباہ کاری سے پاکستان مکمل محفوظ رہا مگر ایران کی سرحد عبور کرنے والے زائرین نے چند دنوں میں متأثرین کی تعداد 300سے زائد کر دی۔ 2 افراد جان کی بازی ہار گئے۔مرنیوالوں میں سے ایک سعودی عرب سے عمرہ کرکے واپس آیا تھا جبکہ دوسرا دبئی سے لوٹا تھا۔ تاہم بڑی کھیپ تفتان سے ہی پاکستان میں داخل ہوئی۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اگر اسپتالوں میں ٹیسٹ کے مناسب انتظامات ہوتے تو وزیر اعظم عمران خان لوگوں کو ٹیسٹ نہ کرانے کا مشورہ نہ دیتے۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ تفتان میں مناسب انتظامات کے بغیر لوگوں کو رکھا۔سندھ حکومت نے بروقت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا اور ہزاروں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے اسپتال قائم کئے۔ڈیرہ غازی خان کے میڈیکل کیمپ کی حالت غیر معیاری ہونے شکایات سامنے آئی ہیں۔متأثرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے سامنے تعریفی کلمات کہنے والے کھڑے کر کے انہیں مطمئن کر دیا جاتا ہے اصل خرابی ان سے چھپا لی جاتی ہے۔یہ بیوروکریسی کی پرانی عادت ہے سیاست دانوں کوچوکنّا رہنا ہوتا ہے۔اب عوام کو خود ہی ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہوگا۔صنعت کاروں کی رائے ہے یہ وقت تنقید سے بلند ہو کر اس وبا کا مقابلہ کرنے کا ہے حکومت کی حکمت عملی درست نظر نہیں آتی۔حکومت کو پیٹرول کی مد میں 5ارب ڈالر کی بچت ہوئی ہے،اس کے علاوہ عالمی سطح پر امداد بھی ملی ہے دہاڑی پر کام کرنے والوں کا خیال رکھا جائے انہیں فوری مددکی ضرورت ہے،اس میں کوتاہی نہ برتی جائے۔گھروں میں بند کرنے کا حکم دینے کے بعد انہیں بھوک سے بچانے کے لئے راشن کی فراہمی بھی ضروری سمجھی جائے۔سارا بوجھ رفاعی تنظیمیں نہیں اٹھا سکتیں۔حکومت کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ابھی صدر مملکت چین کا دورہ کر کے آئے ہیں چین کی حکومت سے حفاظتی اقدامات کی تمام تفصیلات انہیں مل چکی ہیں،اپنے حکومتی وسائل استعمال کریں۔فوج نے پہلے ہی اپنی خدمات کی پیشکش کی ہوئی ہے۔وزراء بیان بازی سے باہر نکلیں، عوام کو مصیبت کے وقت تنہا نہ چھوڑا جائے۔اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں،کچھ عرصہ کے لئے گالم گلوچ سے پرہیز کیا جائے۔لاپروائی برتی گئی تو پاکستان اٹلی جیسا منظر بن سکتا ہے۔ایران اور سعودی عرب سے ابھی متأثرین کی ہزاروں افراد پر مشتمل بڑی کھیپ آنے کا مرحلہ باقی ہے۔انہیں ماضی کی طرح حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔اس سے جو تباہی آئے گی سنبھالی نہیں جا سکے گی۔بیورو کریسی سے بھی توقع کی جا رہی ہے کہ اس قدرتی آفت کا مقابلہ اپنی بہترین صلاحیتوں سے کیا جائے گاماضی سے بہتر کارکردگی دکھائی جائے اس لئے کہ یہ قدرتی آفت ہے،معمول کی انسانی واردات نہیں ہے۔ابھی تک پاکستان میں رویوں میں بہتری نظر نہیں آئی۔ لاکھوں ماسک گوداموں چھپائے جا رہے ہیں تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے بلیک کئے جائیں۔مشکل وقت میں دوسروں کی مدد والا جذبہ تاحال بیدار نہیں ہوا۔منافع خوری کی لت سے جان نہیں چھوٹی۔اب تو وزیر منصوبہ بندی بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ تفتان میں کوتاہی اور غفلت سے انکار ممکن نہیں۔قائد حزب اختلاف کا مطالبہ وزن رکھتا ہے کہ تحقیقات کرائی جائیں۔تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس لاپروائی کے پیچھے سوچی سمجھی منصوبہ بندی تو نہیں تھی؟صوبائی عصبیت تو کارفرما نہیں تھی؟تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچ سکیں۔یہ آخری قدرتی آفت نہیں کہ مطمئن ہو جائیں۔ابھی تو کورونا کے مریضوں اضافے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کو بھی اس وقت اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔تفتانمیں جو کچھ رونما ہوا اس بارے میں کھل کر بحث کی جانی چاہیے۔بلوچستان حکومت کا مؤقف سنا جائے وزیراعلیٰ سندھ کی شکایات کی روشنی میں آئندہ کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے۔ علاقائی عصبیت کے باعث اگر کسی بیوروکریٹ نے جان بوجھ کر صورت حال کو خراب کیا تو تحقیقات کر کے اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ایسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے جو کچھ ہوچکا اسے آئندہ دہرانے کا راستہ بند کیا جائے۔قدرتی آفت کو درست تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔مناسب ہوگا کہ قائد حزب اختلاف مشکل کی اس گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوں اپنے تجربے اور صلاحیتوں سے حکومت کی مدد اور رہنمائی کریں۔اپوزیشن عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔حکومت بھی کنٹینر والی سوچ سے باہر نکلے اپوزیشن کو عزت دے۔عوام مشکل گھڑی میں اپنے حکومت سے بہتر رویہ کی امید رکھتے ہیں عوام کو مایوس نہ کیا جائے۔چین کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کو شکست دی جائے۔ابھی یہ بے قابو نہیں ہوا۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے 100ارب ڈالر مختص کئے ہیں پاکستانی حکومت کو بھی اسی قسم کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔عوام کو بے یارو مددگار نہ چھوڑا جائے۔فراخدلی سے مدد کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں