بلاول بھٹوزرداری کا قائدانہ کردار

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا یہ وقت ایسے سوالات کا جواب دینے کے لئے درست نہیں وفاقی وزیرصحت ہمارے وزیر اعظم عمران خان ہیں وفاقی حکومت اپنی سوچ میں تبدیلی لائے اس وقت یکجہتی کی ضرورت ہے تنقید نہیں کروں گا آج پاکستان مشکل امتحان سے گزر رہا ہے ہم نے کرونا کا مقابلہ کرنا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں:”ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو اس میں وزیر اعظم عمران خان شامل ہیں ہم ملک میں لاک ڈاؤن چاہتے ہیں لاک ڈاؤن کی صورت میں غریبوں کے گھروں تک کھانا پہنچائیں گے دیہاڑی دار مزدوروں کو راشن کی ضرورت ہے پی پی پی انہیں راشن فراہم کرے گی۔بلاول بھٹو کے اس جرأت مندانہ رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک کے دیگر سیاست دانوں سے مختلف سوچ کے مالک ہیں اور جانتے ہیں جب ملک قدرتی آفت میں گھرا ہو اس وقت حکومت بے قصور ہوتی ہے،لہٰذا اسے ناکردہ گناہ پر لعن طعن کی بجائے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پہلے خطاب میں بھی وزیراعظم کو مل کرکام کرنے دعوت دی تھی،کہا تھا ”قدم بڑھاؤ عمران خان، ہم تمہارے ساتھ ہیں“لیکن بدقسمتی ایوان میں ہم آہنگی کی فضاء قائم نہیں ہوسکی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بگاڑ میں اضافہ ہوتا گیا گالم گلوچ کے نتیجے میں فریقین ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے دانشمندی سے کام لیا جائے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا جائے تو آج بھی ملک میں دشنام طرازی کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلاول بھٹو زرداری نے سمجھداری اور فراخدلی کا ثبوت دے دیا ہے اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے دیکھیں حکومت اس کے جواب میں کیسی حکمت عملی وضع کرتی ہے؟کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لئے مل کر میدان میں اترنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ غلط فہمیاں کم ہونے کی راہ نکلے گی وزیر اعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے دیگر وزرائے اعلیٰ کے لئے اچھی مثال قائم کر دی ہے،انہوں نے ہر متاثرہ شخص کو ایک کمرے میں رکھنے کی سہولت کے ساتھ4ہزار سے زائد متأثرین کے لئے قرنطینہ قائم کیا اور کراچی کے ایکسپو سینٹر میں 10ہزار مریضوں کے لئے اسپتال قائم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، 3ارب روپے اس مقصد کے لئے مختص کئے اچھا ہوا کہ اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان بھی سامنے آگئے،وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پہلے روز سے زائرین کا استقبال کر رہے ہیں۔پاکستان میں ہلاکتوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ڈاکٹرز اور پیرا میڈکل اسٹاف کو سرجیکل ماسک، سینی ٹائزراور دیگر حفاظتی سامان فراہم کیاجائے۔اٹلی میں 2629ڈاکٹرز،نرسیں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ڈاکٹرز کا مطالبہ جائزہے۔حکومت کورونا سے بچاؤ کا سامان فراہم کرے کراچی میں ایک ڈاکٹر کامتأثرہونے کے بعد لاپروائی نہ برتی جائے ڈاکٹرز کو کورونا وائرس کے سامنے لاوارث یا چارے کے طور پربنا کر نہ ڈالا جائے سرکاری ملازم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ انہیں وائرس سے بچاؤ کا حق حاصل نہیں رہا انہیں انسانی حق سے محروم کرنے کی حمایت نہیں کی جاسکتی وفاق مانے یا نہ مانے اس نے کوروناسے بچاؤ کے لئے بروقت مناسب اقدامات میں کوتاہی کی ہے اس کی ساری توجہ چین پر مرکوز رہی، دیگر ہمسایہ ممالک(ایران، افغانستان،سعودی عرب،یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کینیڈا)سے پاکستان آنے والوں کے لئے کچھ نہیں کیا یا جو کیا وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔پہلی دو ہلاکتیں سعودی عرب سے آنے والے پاکستانیوں کی ہوئیں اور دیگر ایران سے واپس آنے والے ہیں۔منصوبہ بندی کرتے وقت شائد یہ مفروضہ سامنے رکھا کہ تمام ممالک چین والا فارمولہ استعمال کریں گے۔جیسے ہی ایران نے ہزاروں متاثرین کو پاکستان میں دھکیلاوفاق کی منصوبہ بندی کے نقائص سب کے سامنے آگئے لیکن اس تاخیر کی قیمت ادا کرنا پڑے گی قدرت غلطیوں کی سزا دیتی ہے کوروناوائرس قدرتی وبا ہے،اس سے رحم کی امید نہ کی جائے چین کی طرح 24گھنٹے چوکنارہ کر ہر متأثرہ شخص کو ضروری مدد فراہم نہ کی گئی تو پاکستان بھی ایران اور اٹلی جیسا منظر بن سکتا ہے یاد رہے کورونا وائرس کا قلع قمع کرنا آسان کام نہیں اٹلی کی آبادی صرف 6کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر ہلاکتیں چین سے زیادہ ہو چکی ہیں (جبکہ چین کی آبادی 150کروڑ کے قریب ہے)تیسرے نمبر پر ایران میں ہلاکتیں ایرانی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے بہانوں سے کام نہیں چلے گا۔قدرتی آفت سے بچاؤ کے لئے ٹھوس اقدامات درکار ہوتے ہیں فنڈز خورد برد ہوجائیں تو آفت کا غلبہ برقرار رہتا ہے اس آفت نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے زیادہ چوکس رہنا ہے متاثرہ لوگ بیماری چھپانے کی غلطی کریں گے تو ان کا خاندان متاثر ہوگا جو ہوچکا، وہی کافی ہے آئندہ یہ حماقت نہ کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں