اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی وطن واپسی
مسلم لیگ نون کے صدر اپوزیشن لیڈرشہباز شریف 4ماہ3دن لندن گزارنے کے بعد پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔یاد رہے وہ اپنے بڑے بھائی (سابق وزیرِاعظم) محمد نواز شریف کو شدید علالت کے باعث بغرض علاج ان کی صحتیابی کے بعد واپس عدالت میں پیش کرنے کی ضمانت دے کر لندن لے گئے تھے۔ عدالت میں بطور ضامن ان کاذاتی مچلکہ آج بھی جمع ہے مگر وہ تنہا واپس آئے ہیں۔ وہ لندن میں اپنے بڑے بھائی سے گلے مل کرمعمر والدہ سے قرآنی آیات دم کرانے کے بعد دعائیں لے رہے تھے کہ پاکستانی ٹی وی چینلز نے یہ مناظر دکھانے شروع کردیئے۔اس کے ساتھ ہی تجزیہ کار بھی ان کی وطن واپسی کے سیاسی اور شریف فیملی کی نجی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیش گوئیاں بیان کرنے لگے۔ایک تجزیہ کار کا پراناکلپ دکھایا گیا جس میں انہوں نے اپنے ذرائع کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف 24،25مارچ کو پاکستان لوٹ آئیں گے پرانا کلپ دکھانے کے بعدتجزیہ کار نے ان کی(شہباز شریف کی) دو دن پہلے واپسی کی وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ سابق تاریخ شہباز شریف کے ٹکٹ پر درج تھی۔ مستقبل کے حوالے سے کہا: شہباز شریف کو (مخصوص حلقوں کی جانب سے اس لئے)بلایاگیا ہے کہ عمران خان تاحال (اقتدار میں لانے والوں کو) اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں کر پائے۔ مذکورہ تجزیہ کار نے مزید کہا ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کو اہم ذمہ داری سونپی جائے گی جبکہ شہباز شریف مرکز میں کردار ادا کریں گے۔اگر مذکورہ تجزیہ کار کی پیشگوئی آنے والے دنوں میں حرف بحرف درست نکلی تو یہ پاکستان کے آئین، قانون، اور آئینی اور قانونی اداروں کے بارے میں ایسی شہادت کا درجہ رکھے گی جو مستقبل کے مؤرخ کا کام آسان کر دے گی،اور جو راز مولانا فضل الرحمٰن اعلان کے باوجود ابھی تک سینے سے زبان تک نہیں لا سکے حمزہ شہباز کی حلف برداری کے ساتھ ہی برساتی مینڈکوں کی طرح گلی کوچوں میں اچھل اچھل کر کورس میں دنیا کوسنا رہے ہوں گے۔ گزشتہ دہائیوں میں سیاست دانوں کی شکایات کے بارے میں پائے جانے والے تمام شکوک حقیقت بن جائیں گے”سلیکٹڈ“کی گالی دینے والوں کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور چہرے سیاہ پڑ جائیں گے، عمران خان کو نااہلی کی اعلیٰ ترین سند کے ساتھ گھرجانا ہوگا۔لیکن یہاں سے تبدیلی کی دوسری قسط شروع ہوگی۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام کو اس تاج پوشی کے ذریعے کھلا پیغام پہنچے گا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کی حادثاتی موت اور اسلام آباد کی فیصل مسجد میں تدفین کے بعد بھی پاکستان کے آئین کو ”چند صفحوں کی ایسی کتاب سمجھا جارہا ہے جسے جب چاہیں پھاڑکر پھینکاجاسکتا ہے“۔تاجپوشی وقوع پذیر ہوئی تو عوام کو اپنی رسوائی اوربے توقیری کا شدید غم ہوگا محرومی کی دکھن ایک لازوال چبھن کی شکل میں اس عام آدمی کے دل میں جڑ پکڑ سکتی ہے جس نے 2018کے انتخابی نتائج اچانک رک جانے کو نہ چاہتے ہوئے بھی فنی خرابی کوشفافیت کاسچ مانا اور بہتر مستقل کی تلاش میں نئے عزم کے ساتھ نکل پڑا۔ مگر رسمِ تاجپوشی سے نوجوانوں کے پرانے زخم تازہ ہوجائیں گے ممکن ہے کہ فوری رد عمل سامنے نہ آئے نوجوان کچھ دیر کے لئے سکتے میں آجائیں اور آہستہ آہستہ جب ان کے حواس بحال ہوں گے تو یہ خاموشی بہت بڑا طوفان بن کر اپنے کرب کا اظہار کرے گی۔کورونا کے نظر نہ آنے والے ننھے سے وائرس کی طرح تیزی سے ہردروازے پر دستک دے گی۔ منصوبہ سازوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی 22سالہ سیاسی جدوجہد پر اٹھنے والے سوالات ان کے اعصاب پر ہتھوڑے بن کربرسیں گے۔یہ صدمہ کرکٹ والی شکست کے چند روزہ صدمے سے کہیں گہرااور تکلیف دہ ہوگا۔ممکن ہے وہ نمل یونیورسٹی اورشوکت خانم کینسر اسپتال کی محدوددنیا میں واپس لوٹ جائیں مگر 126روز تک دھرنے کو زندگی بخشنے والے نوجوانوں کا غم غصے میں بدل کر احتجاج کی شکل میں سامنے آیا تو ڈر ہے کہ اس بار منظرقابو سے باہر ہو سکتا ہے۔ ملک میں تیسری پارٹی کا رومان ختم کرنے کی منصوبہ بندی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگرجب تاج پوشی نہ ہوسکی توشام 6بجے سے رات 11 بجے تک ان خواب فروشوں کی اکثریت سے عوام کو نجات مل جائے گی۔گیٹ نمبر چار کے نغمہ سراؤں سے جان چھوٹ جائے گی۔ماضی کے مجاوروں کی پیر سائیں آنے اور میٹھے چاول کھانے کی صدائیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گی۔ہونا تو یہی چاہئے مگرسچ باہر آنے میں کچھ وقت لگے گاآج کے تیز رفتار دور میں زیادہ دیر سچ کو چھپانا ممکن نہیں تاجپاشی کے منصوبہ سازوں نے شائد مکمل ہوم ورک نہیں کیا جلدبازی میں قدام اٹھایاتو بہت کُٹ لگے گی اگر ایک چیف جسٹس کی ناں ایک جنرل کو تاریخ کا عبرت ناک نمونہ بنا وسکتی ہے دوسرے چیف جسٹس سسلین مافیا کی عقل ٹھکانے لگا سکتے ہیں تو عام آدمی کو امید ہے تیسرے چیف جسٹس کا قلم مجوزہ رسمِ تاجپوشی کا راستہ روک دے گا اس لئے کہ معزز عدلیہ جانتی ہے کہ یہ تاج پہننے والے سسلین مافیا کی باقیات ہیں۔