امریکا پھر پرانی حکمت عملی پر گامزن

آج کا اداریہ

کورونا کے سامنے بھیگی بنا امریکا دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ اب بھی شیر ہے اس کا اشارہ ان اطلاعات سے ہوتا ہے جو امریکی میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچی ہیں گزشتہ ہفتے امریکی وزارت دفاع(پینٹاگون) نے عسکری قیادت کو حکم دیا ہے کہ عراق میں امریکی معرکہ آرائی کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کرے۔ایران نواز ملیشیاؤں کے مجموعے کو تباہ کرنے کے لئے ایک مہم کی تیاری کی جائے۔ ان ملیشیاؤں نے عراق میں امریکی افواج کے خلاف مزید حملوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔یہ پیشرفت بغداد میں امریکی مفادات پر حملوں کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد سامنے آئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن سمیت ایران اور اس کی فورسز کے خلاف نئے سخت اقدامات کرنے کے لئے دباؤڈال رہے ہیں۔ ان شخصیات کا کہنا تھا کہ عراق میں ایران نواز ملیشیاؤں کو ختم کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے کیوں کہ کورونا کے وباء کے سبب ایرانی قیادت انتشار کا شکار ہے۔میڈیا کے ذریعے فراہم کی جانے والی اطلاعات سے ثابت ہوتاہے کہ ایرانی جنرل قاسم کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے ایران نے جو کارروائی کی تھی،اس میں امریکا کو بھاری نقصان ہوا تھاورنہ امریکا اس کو ایران کے لئے کافی کہہ کرلڑائی کو آگے نہ بڑھانے کی درخواست نہ کرتا۔علاوہ ازیں ایران نواز ملیشیاء مختصر وقفوں سے امریکی اڈوں پر حملے جاری رکھنے سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایران کا پلہ بھاری تھا۔نیز عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ یکسر بے وزن نہیں مانا جا سکتا۔البتہ امریکی پالیسی سازوں کی رائے اپنی جگہ درست ہے کہ ایرانی قیادت کی توجہ کورونا کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی طرف مرکوز ہے ہلاکتیں 2640اور متأثرین کی تعداد 39ہزار سے متجاوز ہے۔کورونا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ فی زمانہ ایران کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔لیکن ایران کے حوالے سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ وہ اپنے خلاف امریکی عزائم سے بے خبر ہے یا لاپروائی کا ثبوت دے گا،ایران پہلے بھی امریکاکے خلاف 8 سال تک کامیابی سے جنگ لڑ چکا ہے عراق اس پراکسی وار میں تباہ ہو گیا،رہی سہی کسر امریکا نے خود پوری کر دی، وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام عائد کر نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ حملہ کر دیااور صدام حسین کو اپنی غلط سوچ کی بھاری قیمت چکانا پڑی،خود بے بسی سے قتل ہوئے ملک اور عوام تباہ و برباد ہوگئے بلکہ آج تک ان کے زخموں سے خون رس رہا ہے۔ داعش سمیت دیگر متشدد تنظیمیں عراق میں فعال ہیں۔حالانکہ برطانیہ اور امریکا وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کی اطلاع کو جھوٹ کہہ کر معافی مانگ چکے ہیں مگر معافی اس بدترین تاریخی تباہی کا مداوا نہیں کر سکتی،اس کا عذاب عراقی عوام کی کئی نسلیں اپنی جان پر برداشت کریں گی۔لیکن امریکی مقتدرہ کو بھی سوچنا ہوگا افغانستان سے واپسی کے لئے انہیں اتنی ہزیمت کاکیوں سامنا ہے؟اپنی ہی بنائی ہوئی حکومت آنکھیں دکھا رہی ہے۔صدر اشرف غنی امریکی معاہدے پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں۔افغان طالبان کی رہائی سے انکاری ہیں اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں۔ایران پہلے ہی مشکل حالات کا مقابلہ کر رہا ہے،عادی ہے اور کچھ دیر مشکلات برداشت کر لے گا۔بات ایران کی نہیں، امریکی اعصاب کی ہے کیا امریکی حکمراں ایرانی رد عمل سہہ سکیں گے۔افغانستان سے پسپائی کی اندرونی کہانی سے ایران واقف ہے چنانچہ امریکی قیادت کو زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔کورونا سے تنہا ایران پریشان نہیں دنیا کے دیگر200ممالک بھی پریشان ہیں امریکی متأثرین کی تعداد ایک لاکھ 40ہزار اورہلاکتیں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہیں۔چند روز میں کورونا کے تناظر میں امریکا نمبر ون ہونے کے قریب ہے۔اٹلی سے آگے نکلنے کے لئے تھوڑی سی ہلاکتیں درکار ہیں۔ یہ صورت حال قابل رشک نہیں کہلا سکتی۔امریکی تھنک ٹینکس کو چاہیے کہ ایران نواز ملیشیاؤں کو ختم کرنے کی مہم کے حوالے سے مزید سوچ بچار کر لیں۔رد عمل توقع سے کئی گنا سخت آئے گا۔عراقی عوام اپنی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار امریکا کو سمجھتے ہیں۔مذہبی طور پر بھی وہ ایران کے قریب ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس گزشتہ ہفتے تمام ممالک سے اپیل کر چکے ہیں کہ موجودہ صورت حاہل میں پرانی رنجشوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔جنگ کو ہوا دینے کی بجائے کرونا سے چورچور دنیا کے زخموں پر مرہم رکھی جائے۔عراقی پارلیمنٹ امریکی فوجوں کے انخلاء کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔اگر اسے امریکی مخالف جذبات کا علامتی اظہار سمجھا جائے تب بھی امریکی تھنک ٹینک کے لئے لمحہئ فکریہ ہے۔اس سے صرف نظر نقصان دہ ہوگا۔یاد رہے اس دوران صرف ایران تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوا خود امریکا کے اعضاء بھی تھکن زدہ ہیں۔امریکا کورونا کا ہیڈ کوارٹر بنتا جا رہا ہے۔اپنی فکر کی جائے۔ایران کے خاتمہ کی خواہش ترک کر دی جائے تو امریکی عوام کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ایرانی جسم ختم نہ کئے جائیں عوام کے دل جیتے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں