آفت کے نام پر قیدی رہا نہیں کئے جا سکتے

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پوچھا ہے کہ کس اختیار کے تحت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے؟ایسا نہیں ہو سکتا آفت کے نام پر لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں یہ اختیارات کی جنگ ہے ان حالات میں بھی اپنے اختیارات سے باہر نہیں جانا۔کسی نے ایک ہفتہ پہلے جرم کیا ہے وہ بھی باہر آجائے گااگر ایک شخص جس پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی،قتل، چاقو کا وار کرنے یا گولی چلانے کا الزام ہے ایسی صورت میں شکایت کنندہ کے کیا جذبات ہوں گے؟اختیارنہ ہو تو ٹک ٹک کر آرڈر کیسے؟ ہم جائزہ لیں گے کہ کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا؟ کوئی طریقہئ کار ہونا چاہیے کوئی انتظامی پالیسی ہونی چاہیے جس کی عمر زیادہ ہو یا جس کی قید ایک دو مہینے باقی ہو انہیں کسی پالیسی کے تحت رہا کیا جا سکتا ہے مگر ایک آرڈر کے تحت رہائی خود ایک سوال ہے! ہم مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ اجازت بھی نہیں دے سکتے کہ قیدیوں کو اس طرح رہا کیا جائے۔ہم نے قانون کی حکمرانی کوقائم کرنا ہے۔حالات کی سنگینی کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک منظم طریقے سے لوگوں کو رہا کیا جا رہا ہے انڈین سپریم کورٹ نے ایک با اختیارکمیشن بنا کر معاملہ اس پر چھوڑ دیا ہے۔امریکی عدالت بہت قدامت پرست ہے اس کا مؤقف ہے کسی کو رہا نہ کیا جائے یہ ملزم باہر جا کر دنگا فسادکریں گے۔عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 408 قیدیوں کے رہائی کے فیصلے سمیت دیگر عدالتوں کی جانب سے جاری فیصلے معطل کر دیئے ہیں ملک کو کرونا کی وجہ سے کن حالات کا سامنا ہے سب کو پتہ ہے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین کی طرف سے دائر کردہ توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سیکرٹری صحت کی عدالت میں عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میں سیکرٹری ہیلتھ کو 6ماہ کے لئے جیل بھیجنے کا حکم دیتا ہوں ایس ایچ او جائیں اور سیکرٹری ہیلتھ کو گرفتار کے جیل بھیجیں۔حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے وزیروں اوراعلیٰ حکام کو جیل بھیج دوں گا جیلیں انہی کے لئے بنی ہیں۔وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے حکومت نے عدالتی حکم پرعمل نہیں کیا ملازمین کو 5ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔ایک گھنٹے میں پی ایم ڈی سی کا تالا توڑیں۔رجسٹرار کو ان کے دفتربٹھا کرآئیں میں اپنے فیصلے کو اس سطح پر لے جاؤں گاکہ کوئی برداشت نہیں کر سکے گاوفاقی حکومت عدالت کے منہ پر تھپڑ مار رہی ہے وزارت والوں کو سمجھائیں یہ جیل چلے جائیں گے توان جیسے ہو جائیں گے جوجیلوں میں بند ہیں۔عدالتی فیصلے کو تین پیشیوں تک نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔وفاقی حکومت کو بیوروکریٹس سے شکایت ہے کہ وہ اس سے تعاون نہیں کر رہے۔حکومت کی کارکردگی سست ہونے کی بڑی وجہ یہی بتائی جاتی ہے۔تاہم حکومت کو یادرہے کہ بیوروکریٹس اگر عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کی عادت ترک نہیں کریں گے تو نہ صرف انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا بلکہ متعلقہ وزراء بھی جواب دہ ہوں گے۔توقع کی جانی چاہیے کہ معزز جسٹس کے احکامات کو آئندہ ہلکا لینے کی ہمت نہیں کی جائے گی۔دراصل گزشتہ تین دہائیوں میں بعض ججز (ملک عبدالقیوم اورحالیہ ویڈیو فیم جج) نے عدالتی وقار کو حد درجہ نقصان پہنچایا ہے۔اس تفصیل سے معزز عدلیہ بخوبی واقف ہے۔ قانونی اختیارات کی بجائے مرضی کے فیصلے جاری ہوتے رہے۔حکمراں جماعت سے وابستگی رکھنے والے وکلاء کے توہین آمیز ریمارکس کو نظر انداز کرنا ایک مستحکم روایت بن چکا تھا۔بعض وکلاء نے ججز کے بچوں کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دی گئیں مگر انہیں قرار واقعی سزا دینے کی بجائے معافی دی جاتی رہی ہے۔ جنہوں نے ملزم وزیر اعظم سے ججوں کو باہر نکالنے کے مطالبہ کیا وہ آج بھی ٹی وی چینلز کی رونق بنے ہوئے ہیں۔ایسے ماحول کو درست کرنا آسان نہیں۔ خرابی بہت پرانی ہے کینسر بن چکی ہے سادہ ادویات سے علاج ممکن نہیں۔معزز عدلیہ کو بگڑے ہوئی عادات اور رویئے کی اصلاح کے لئے مناسب سختی کرنا ہوگی۔توہین عدالت ایک سنگین جرم ہے اس کی معافی کا سلسلہ بند کیا جانا ضروری ہے۔اس جرم کی قانون کے مطابق سزا قرار دی جائے۔عدالتی حکم کی پہلی خلاف ورزی پر متعلقہ سرکاری افسریا وکیل کوجیل بھیجنے کا عمل جس دن زمینی حقیقت بن گیا اسی روز سب کا دماغ درست ہو جائے گا۔معافی ملتے ہی مجرم مسکراتا ہوا کمرہئ عدالت سے باہر نکلتا ہے یہ مسکراہٹ دوسروں کو جرم کی تحریک دلانے کا سبب بنتی ہے۔معافی والے جملے کو فیصلوں کی زینت نہ بنایا جائے تاکہ سزا کا خوف جرم کے ارتکاب کا راستہ روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔کوئی مانے یا نہ مانے سزا کی عدم موجودگی جرائم کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔جرم کی فوری اور یقینی سزا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والامجرم گلو بٹ کی طرح تسبیح ہاتھ میں تھام کر دعاؤں کا ورد کرنے لگتا ہے۔ہر بیوروکریٹ یا وکیل اپنا پیشہ ورانہ مستقبل اپنے ہاتھوں تاریک کرنے کی حماقت سے باز رہے گا۔ اگر سیکرٹری صحت کو معافی نہ دی گئی تو آئندہ بیوروکریٹس عدالتی سمن کا احترام کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں