بلوچستان کا حال اور مستقبل کا مورّخ

نصیر بلوچ
جس معاشرے میں سچ لکھنے پر خوف طاری ہو، حقائق بیان کرتے ہوئے صحافی پر سنگ باری ہو، دانشور پر وار کاری ہو اس معاشرے میں حقائق سے آشنائی کے لئے سارا انحصار مستقبل کے مورخ پر ہوتا ہے۔ ہم سب 2 چیزوں کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مستقبل کا مورخ اور دوسرا مسیحا جو آکر ہماری قسمت بدل دے۔ سوال یہ ہے کہ مستقبل کا مورخ کیا لکھے گا؟ حال کا مورخ اور لکھاری کیا کررہا ہے؟ حال کا مورخ حالاتِ حاضرہ کے ختم ہوجانے کا انتظار کررہا ہے کیونکہ حال کا مورخ اگر حال پر لکھے تو اسے بے حال کردیا جائے گا۔ حال کے لکھاری کا حال تو یہ ہے کہ ”بلوچستان کے مسائل“ عنوان پر لکھ دیتا ہے، ساری بلوچستان کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ فلمز ہیں۔ قارئین پاکستان کے باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان میں سب سے زیادہ فلمز دیکھی جاتی ہیں، اس لئے تاریخ کو توڑ مروڑ کر بنائی جانے والی بھارتی فلم ”پدماوت“ نے بلوچستان کے لوگوں میں تاریخ کو لیکر غلط تاثر پیدا کیا ہے۔ اس لئے حال کے لکھاری کو پڑھنے کے بجائے ہم سب نے ساری امیدیں مستقبل کے مورخ پر لگا بیٹھے ہیں۔ کہیں اس ڈر سے کہ مستقبل کا مورخ اس میدان میں آ بھی نا جائے اگرچہ مستقبل کا مورخ تاریخ پر کچھ لکھنا چاہئے بھی تو کیا لکھے گا کیونکہ حال کے لکھاریوں نے کچھ مواد ہی نہیں چھوڑا ہے۔ پھر تو یہی ہوگا کہ وہ بے چارہ تحریری مواد کھنگالنے کے لیے کسی کتب خانے میں بیٹھا ہوگا کہ اس کے اسمارٹ فون پر پیغام آئے گا، کہاں ہیں؟ ماضی کے اوراق میں گم مؤرخ دھیان نہیں دے گا، کچھ دیر بعد دوسرا پیغام آئے گا جواب تو دیں، وہ فون کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، پھر تواتر سے آنے والے پیغامات میں شوہر کی بے گانگی، بے حسی، بے پروائی، سنگدلی کی تاریخ درج ہوگی، جس کے آخری باب کا عنوان ہوگا، ضرور کسی اور کے ساتھ ہیں۔
پھر موبائل فون پر کال آئے گی اور مورخ کا سارا استغراق یہ سن کر درہم برہم ہوجائے گا کہ تمہیں تو میں نے فلاں چیز کا کہا تھا ابھی تک لائے کیوں نہیں؟ کہاں ہیں آپ کب سے فون پر میسج کررہی ہوں لیکن آپ ہیں کہ جواب نہیں دے رہے؟ ایسے میں مستقبل کا مورخ کہے گا چھوڑو یار دفع کرو مواد نہیں تو کیا کرسکتے ہیں۔ اس طرح مواد محض ایک بہانہ سا معلوم ہوگا۔ رات پھر مستقبل کے مورخ کو خیال آتا ہے کہ سوچا تھا بلوچستان کی تاریخ کو قلم بند کرکے اپنی عزت و شہرت کا سبب بناؤں گا لیکن ایسے ممکن نہیں۔ اب میرے خوابوں کی تعمیر کیسے ممکن ہے وہی حال کے لکھاریوں کی طرح لکھ دوں گا یا ٹاک شوز میں بطور ماہرین تاریخ یا تاریخ دان بیٹھ کر تاریخ میں ظلم کی داستان، اندھیروں میں ڈوبے معاشرے میں اپنی ذہنی بساط کے مطابق بات کروں گا۔ سو میں سے ایک یا عدد مستقبل مورخ اپنی ضد پر بنے رہتے ہیں کہ ان ساری مشکلات کے باوجود ہمیں تاریخ پر کچھ لکھنا ہے تو وہ لکھاریوں کو پڑھ کر بہت کنفیوز ہوں گے۔ وہ سوچیں گے ”نئے پاکستان کا بیانیہ کس کا تھا“ عمران خان کا یا اپوزیشن کا؟ تحریک عدم اعتماد پاس ہونے کے بعد اب جو حکومت بننے جارہی ہے اسے نیا پاکستان کہیں یا پہلے جو حکومت تھی اسے، کس کو نیا پاکستان کا نام دیں۔ نئے پاکستان میں بلوچستان میں کیا نیا ہے؟ مستقبل کے مورخ پر امیدیں وابسطہ کرنا بے کار ہے، جب تک حال کے لکھاری سب بے حال ہیں۔ بلوچستان کے مسائل عم پہلے تو کوئی تذکرہ نہیں کرتا اگر چند ایک صحافی دوست تدکزہ کرتے ہیں تو ان مسائل کے جینوئن حل نہیں بتاتے۔ اصل مسائل سے آشنائی اور مسائل کی تہہ تک پہنچ کر ہی کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ عمران نیازی پچھلی حکومتوں کی طرح بلوچستان کو ترقی کے نام پر بلوچستان کے مسائل لوٹ کرگیا ہے۔ ریکوڈک کا سودا بلوچستان کے تاریخ کا بدترین ظلم تصور کیا جائے گا۔ حالیہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے ثابت ہوا کہ ہمارے لیڈران اپنی اوقات کے مطابق رضامند ہوتے ہیں حالانکہ وسائل کے نہیں تو اپنی شان کے مطابق حصہ دیاجانا چاہئے تھا۔ لیکن بقول انور ساجدی صاحب کے یہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ غیر مفید این جی اوز ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں