پیالی میں طوفان

تحریر: انور ساجدی
9مئی کو لے کر کارزار سیاست میں بظاہر گھمسان کا رن دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ کوئی حقیقی طوفان نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر مصنوعی ہے کیونکہ یہ محض زبانی کلامی ہے۔فریقین کا سارا زور میڈیا پر بیانات کی حد تک ہے البتہ عمران خان کی جو یہ ڈیمانڈ تھی وہ مذاکرات کریں گے تو صرف مقتدرہ سے ورنہ تین نام نہاد بڑی جماعتوں سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے فوج نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ جب تک عمران خان9 مئی کے واقعات پر معافی نہیں مانگیں گے اس انتشاری سیاسی ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔اس کے ردعمل میں عمران خان نے اڈیالہ جیل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کہ کسی صورت معافی نہیں مانگیں گے بلکہ9 مئی جن عناصر نے کروایا الٹا وہ ان سے معافی مانگیں۔مجھے تو یہ گلے شکوے لگتے ہیں کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے دل کے کسی گوشے میں ہمدردی یا پسندیدگی کا عنصر ضرور رکھتے ہیں کیونکہ 9مئی کو ایک سال گزر گیا ہے کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ملی۔ سویلین عدالتوں نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیابلکہ فوجی عدالتوں سے بھی بظاہر کسی ملزم یا مجرم کو سزا نہیں ملی اگر کسی کو سزا ملی ہو اور اس کا اعلان نہ کیا گیا ہو تو یہ الگ بات ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کا عمران خان نے جس دلیری کے ساتھ جواب دیا پی ٹی آئی کے حلقوں میں بڑی واہ واہ ہورہی ہے اور عمران خان کو ایک دلیر لیڈر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اس واقعہ سے بھی عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوا ہے اس کے باوجود کہ تحریک انصاف کے اندر واضح اختلافات سر اٹھا رہے ہیں نئی صورتحال کا پارٹی قائد کو فائدہ مل رہاہے مثال کے طور پر ان کی اہلیہ کی درخواست پر انہیں اپنے بنی گالہ کے محل سے اڈیالہ جیل کی منتقلی کو بھی اصولی طور پر دلیری کے طور پر لیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی طرح کوئی لیڈر آج تک مقتدرہ سے ٹکرایا نہیں ہے کوئی شک نہیں کہ 8 فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف نے سادہ اکثریت حاصل کرلی تھی لیکن بوجوہ اس کی اکثریت کم کی گئی۔اگر9 مئی کے واقعات کے باوجود تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ پڑے تو یہ عمل کیا ثابت کر رہا ہے ؟ مولانا تو کہہ چکے ہیں کہ 8 فروری کے انتخابات نے9 مئی کا بیانہ ختم کر دیا ہے۔خود مولانا بھی تحریک چلانے کی دھمکی دے کر کوئی پیش رفت نہیں کر رہے بلکہ چند ہزار شاگردوں کا اجتماع بلا کر وہ انہیں ”ملین مارچ“ کا نام دے رہے ہیں حالانکہ ملین کا مطلب10 لاکھ ہوتا ہے اور آج تک مولانا کے کسی احتجاجی اجتماع میں 10لاکھ لوگوں نے شرکت نہیں کی۔مولانا کے اپنے موقف میں بھی تضاد ہے ایک طرف وہ8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے عمران خان کے موقف کی تائید کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ ان کی جانب اتحاد کا ہاتھ بڑھانے سے گریزاں ہیں حالانکہ اس صورت میں سیاسی صف بندی واضح ہے۔ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی ہے دوسری جانب مقتدرہ اور اس کی تابع فرمان جماعتیں ن لیگ ،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔مولانا کسی کے بھی ساتھ نہیں ہیں۔البتہ محمود خان اچکزئی کی صورت میں عمران خان کو اچھا ساتھی ملا ہے جنہوں نے فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے جواب میں کہا کہ آپ لوگوں نے کئی مرتبہ آئین توڑا لیکن ایک بار بھی معافی نہیں مانگی اگر آپ اپنے کئے کی معافی مانگیں تو ہم عمران خان سے بھی معافی منگوالیں گے۔اگرچہ محمود خان اچکزئی عمران خان کے اتحادی ہیں اور صدارتی امیدوار بھی بنے لیکن انہوں نے ابھی تک انضمام کے بارے میں نہیں سوچا حالانکہ اتنی قربت ہے کہ انضمام میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ عمران خان اس وقت پشتون قوم کے سب سے مقبول لیڈر ہیں ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ طالبان حکومت کے کئی وزراءکے دفاتر میں عمران خان کی تصویر آویزاں ہے۔اگر محمودخان پی ٹی آئی سے انضمام کر کے اپنے مقصد کو آگے بڑھائیں تو سیاسی اعتبار سے وہ فائدے میں رہیں گے جبکہ ان کی جماعت صرف بلوچستان کے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود ہے اور ان کا یہ نعرہ فیل ہوچکا ہے کہ بلوچستان کے شمالی علاقوں پر مشتمل ایک صوبہ بنایا جائے جس کا نام جنوبی پختونخواہ رکھا جائے۔پاکستان میں شامل پختون اپنا صوبہ رکھتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ جنوبی پختونخوا اس میں ضم ہوسکتا ہے جیسے کہ فاٹا کے آزاد علاقے ضم کر دئیے گئے۔اتنے چھوٹے سے علاقہ پر مشتمل صوبہ بننا ناممکن ہے لہٰذا محمود خان کے لئے بہتر ہے کہ وہ افغان ملت کی وحدت کے نظریہ پر کام کریں اور اس مقصد کے لئے عمران خان کی مقبولیت کو بروئے کار لائیں۔ہاں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ عمران خان کب فوج سے صلح کر لیں اور وہ ایک بار پھر باہم شیر وشکر ہو جائیں۔ایسی صورت میں محمود خان اکیلے رہ جائیں گے۔البتہ انضمام کی صورت میں وہ ایک نمایاں اور وسیع کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ پختونوں میں کہیں نہ کہیں یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ان کی بالادستی تسلیم نہیں کی گئی تو پھر وہ آخری حد تک جائیں گے۔9مئی 2023 کے دن پارٹی لیڈر شاندانہ گلزار نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں۔اس کلپ کو گزشتہ روز بار باردکھایا گیا اور منفی انداز میں پیش کیا گیا۔یہ سب کیا ہے؟ ایسے لگتا ہے جیسے بڑے بڑے دشمن صف آراءہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے جلد یا بدیر فریقین بات چیت کا راستہ اپنائیں گے کیونکہ دونوں فریقین کا ایک ڈومیسائل ہے۔اس لئے یہاں پر غداری کا مسئلہ نہیں چلتا۔ اگر9مئی کے واقعات بلوچستان میں ہوتے تو اب تک نہ جانے کیا کچھ ہوتا۔آخر اپنے لوگوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔کل تحریک انصاف پسندیدہ تھی آج ن لیگ ہے اور کیا بعید کہ آنے والے کل میں پھر بازی پلٹ جائے کیونکہ پاکستان کی ریاست میں جمہوریت اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔جو آئین ہے اس سے بار بار کھلواڑ کیا گیا۔ صرف جنرل مشرف کو ایک عدالت نے سزا سنائی لیکن وہ بھی علالت کی وجہ سے چل بسے۔عدالتی احکامات پر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔آئین کی دفعہ6متروکہ ہے۔اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوگا۔اس ریاست میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی طویل عرصہ تک خواب رہے گا۔

پنجاب اور سندھ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ دونوں حکومتیں کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف شدید ناکامی سے دوچار ہیں۔ اسی اثناءمیں پنجاب حکومت نے میر جلالاں کلپر کی قیادت میں ایک بگٹی لشکر تیار کیا جس نے پنجاب حکومت کی بکتربند گاڑیوں میں سوار ہو کر ڈاکوﺅں کے خلاف کارروائی کی۔بھاری نفری اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی موجودگی کے باوجود ڈاکوﺅں کے سامنے حکومت کی بے بسی درس عبرت کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر قانون توڑنے والوں کے خلاف پرائیویٹ لشکر اتارنے کا سلسلہ چل نکلا تو حکومتی رٹ باقی نہیں رہے گی اور ہر شخص قانون اپنے ہاتھوں میں لے گا اور کسی کی جان ومال محفوظ نہیں رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں