ہیرا منڈی

تحریر: انور ساجدی
سنجے لیلا بھنسالی ہندوستان کے معروف اور مشہور فلم ساز ہیں۔انہوں نے اپنے کیرئیر میں کئی شاندار کمرشل فلمیں تخلیق کی ہیں۔ان میں بلیک،دیوداس، باجی راﺅ مستانی،رام لیلا،پدماوت، گنگوبائی کاٹھیاواڑی،خاموشی، ہم دل دے چکے صنم،گزارش شامل ہیں۔حال ہی میں انہوں نے ہیرامنڈی کے عنوان سے ایک فلم بنائی ہے جو لاہور کے شاہی محلہ بازارحسن یا”اس بازار“ سے متعلق ہے۔یہ ایک ویب سیریز ہے جو نیٹ فلیکس نے جاری کی ہے اور اس کی آٹھ قسطیں ہیں۔فلم ریلیز ہونے کے بعد اس کے بارے میں طرح طرح کی آراءسامنے آئی ہیں۔ بعض ناقدین نے اس پر شدید تنقید کی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو ہیرامنڈی دکھائی گئی ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بات کافی حد تک صحیح ہے لیکن دوسری جانب ہندوستانی اور پاکستانی سماج نے اس کے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلم کو عوامی سطح پر بے حد پذیرائی ملی ہے۔بھنسالی نے جو عظیم الشان سیٹ آراستہ کئے ہیں کبھی بھی بازارحسن میں ایسی عمارتیں اور ایسی خلوت گاہیں نہیں تھیں لیکن یہ ایک ڈرامہ ہے فلم ہے اور بیشتر فلموں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا نہ ہی بھنسالی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تاریخی یا آرٹ فلم بنائی ہے۔حیران کن طور پر فلم کا ہیرو ایک بلوچ کو دکھایا گیا ہے حالانکہ بلوچوں کا لاہور سے کوئی ایسا گہرا تعلق نہیں ہے۔فلم صرف ایک خاتون نائیکہ کے گرد گھومتی ہے جس کا نام ملکہ جان رکھا گیا ہے اور یہ کردار نیپالی اداکارہ منشیا کوئرالہ نے نبھایا ہے۔یہ ان کی زندگی کا سب سے یادگار اور متاثرکن کردار ہے۔اس سے پہلے ان کی واحد کامیاب فلم سوداگر تھی جس کے مین کردار دلیپ کمار اور لورالائی سے تعلق رکھنے والے رج کمار تھے۔جس نوجوان نے تاجدار بلوچ کا کردار ادا کیا ہے اس کا مختصر کردار بہت متاثر کن ہے بھنسالی کی بھانجی شرمین سہگل فلم میں تاجدار کی محبوبہ بنی ہے۔ناقدین کے اعتراضات سے قطع نظر لاہور کا شاہی محلہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو موجودہ پاکستان ہے اس کے کئی حصے کے لوگ ہیرامنڈی کے کلچر سے واقف نہیں ہیں۔برسوں پہلے مختلف ناولوں میں لاہور اور لکھنو کی طوائفوں پر مبنی کہانیوں کو اجاگر کیا جاتا تھا اکثر مصنفین نے طوائفوں کو ایک مظلوم دھوکوں کی ماری طبقہ قرار دیا ہے۔اردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے کئی کردار طوائفوں کے گرد گھومتے تھے۔19 ویں صدی میں لکھنو کی تہذیب کو بنیاد بنا کر مرزاہادی رسوا نے امراﺅ جان ادا کے نام سے ایک ناول تحریر کیا تھا۔ہادی رسوا انڈین ریلوے میں انجینئر تھے اور وہ بولان میں ریلوے لائن بچھانے کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔انہوں نے ناول بولان کے کسی مقام امکانی طور پر مچھ میں بیٹھ کر تحریر کیا ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ اودھ کا دارالحکومت لکھنو(اب یوپی کا صدرمقام) اور پنجاب کا صدر مقام لاہور حسن کے مراکز تھے۔ہمارے جو اساتذہ کرام تھے وہ لکھتے اور کہتے تھے کہ لکھنو اور لاہور کی طوائفیں اتنی مہذب، باادب اور شائستہ تھیں کہ شہر کے شرفا اپنے بچوں کو تہذیب اورآداب زندگی سکھانے کے لئے وہاں بھیجتے تھے۔عقل نہیں مانتی کہ شرفاءاتنے غیرمہذب تھے کہ ان کی اولاد کو تہذیب سیکھنے کے لئے بازار حسن جانا پڑتا تھا۔گزشتہ صدی میں نامور صحافی خطیب اور مجلس احرار کے لیڈر شورش کاشمیری نے اپنی مشہور کتاب”اس بازار“ میں لکھی تھی ۔ان کی کتاب کا موضوع لاہور کی ہیرامنڈی ہے۔انہوں نے کئی طوائفوں کے انٹرویو بھی کئے تھے اور اس خاتون سے بھی ملے تھے جن سے ملنے علامہ سر محمد اقبال جایا کرتے تھے۔اس کتاب میں ہیرامنڈی کے کلچر کا خوب احاطہ کیا گیا ہے۔پاکستان بننے کے بعد بڑے نامور اساتذہ شاعر ادیب اور لکھاری جو ہندوستان سے آئے تھے وہ پاکستان کی تہذیب اور ادب کو کمتر سمجھتے تھے اور یہاں کے لوگوں کو اپنا ہم مرتبہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ان کے اسی تفاخر کی وجہ سے سندھ میں بڑے مسائل پیدا ہوئے اور لسانی تفرقہ اتنا بڑھ گیا کہ کئی بار فسادات ہوئے۔آج بھی کئی ہندوستانی اکابرین یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ایک عظیم ثقافت اپنے ساتھ لائے ہیں حالانکہ جس جگہ یہ ثقافت پھوٹی تھی وہ آج بھی ہندوستان میں برقرارہے۔البتہ وہ تہذیب جو مسلمان اپنے ساتھ انڈیا لائے تھے وہ دم توڑ چکی ہے۔آزادی کے بعد یہ تہذیب ایک جانب خلیج بنگال کی تہہ میں ڈوب چکی ہے اور دوسری جانب بحیرہ عرب میں ہچکولے کھا رہی ہے۔یوپی اور سی پی کا کلچر سندھ ساگر کا حصہ بننے جا رہا ہے۔سندھ دھرتی اس تہذیب کو بانہوں میں لئے سرشاری اور سرفرازی کا اظہار کررہی ہے کیونکہ جو حقیقت ہے وہ سندھ ہے۔گمنا جمنا پیچھے رہ گئی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہاں پر ایک ورسٹائل تہذیب سر اٹھا رہی ہے جو آئندہ ایک صدی تک تکمیل کے مراحل تک پہنچے گی۔

بلوچستان چونکہ تاریخی طورپر کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔اس لئے یہاں پر گنگا جمنی تہذیب کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے انگریزوں نے فارسی سے رشتہ کاٹ کر اردو کو ضرورمسلط کیا لیکن بلوچ سماج کے خدوخال قائم رہے۔پاکستان کی مختلف حکومتوں نے مختلف وحدتوں کی قومی زبانوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جو درحقیقت ہزاروں سال سے یہاں کی قومی زبانیں ہیں۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تدریس کے حق سے محروم رکھا گیا جو آج تک جاری ہے۔اردو زبان کی ترویج اور ارتقاءکے لئے ریاست نے بہت جتن کئے ایسا نصاب مرتب کیا گیا جو یو پی سی سی سے متعلق تھے۔ایسے گمنام ہندوستانی شاعروں کا کلام نصاب میں شامل کیا گیا جنہیں مقامی لوگ جانتے تک نہیں تھے۔دونمبر جعلی نصاب میں ایک مسخ شدہ تاریخ پیش کی گئی جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔غالب کو نکال کر ایسا کوئی شاعر نہیں کہ بلوچستان اور سندھ کے شاعروں کا ہم پلہ نہ ہو۔جب پروفیسر کرار حسین بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو وہ اپنے طلباءکو ادب پر لیکچر دیا کرتے تھے وہ تسلیم کرتے تھے کہ بلوچستان آنے سے پہلے انہیں آگاہی نہیں تھی کہ یہاں پر کس قدر قادرالکلام شاعر گزر رہے ہیں۔وہ جام ورک اور مست توکلی کا خاص طورپر ذکرکرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جام ورک کے ایک شعر میں پوری زندگی کا فلسفہ موجود ہے۔

میں پاگل ہوں جو دل سے الجھتا ہوں
دل پاگل ہے جو مجھ سے الجھتا ہے
پروفیسر صاحب یہ مانتے تھے کہ بلوچستان نہ صرف ایک عظیم تاریخی ورثہ کا امین ہے بلکہ دنیا کی سب سے منفرد تہذیب یہاں پائی جاتی ہے کیونکہ پوری دنیا میں کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں لوگ بیک وقت پانچ زبانیں بولتے ہوں یہ اعزاز صرف کوئٹہ شہر کو حاصل ہے۔پاکستانی حکمران چونکہ بلوچستان کو حقیر کمتر اور اس کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے اس لئے شروع سے اب تک اس کے ساتھ غیر سنجیدہ رویہ رکھا جاتا ہے۔کبھی اس کے ساتھ سیاسی مذاق ہوتا ہے کبھی اس کی تہذیب کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ ادبی بداخلاقی سے کام لیاجاتا ہے حالانکہ گزشتہ چند عشروں میں سب سے زیادہ ادب بلوچستان نے جنم دیا ہے لیکن چونکہ یہ ادب اور شاعری مزاحمتی ہے اس لئے اسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔گزشتہ دنوں بلوچستان لٹریسی فیسٹیول کے نام سے اہل بلوچستان کے ساتھ ایک اور بھونڈا مذاق کیا گیا۔ریاستی سرپرستی میں ہونے والے اس مذاق میں ملک کے طول و عرض سے جہاں مستند ادیب اچھے دانشور اور شخصیات اکٹھی کی گئیں وہاں پر مسخروں،بھانڈوں اور میراثیوں کا ایک بڑا لشکر بلایا گیا۔متعدد اداکاروں اور فنکاروں کو بھی یہاں قدم رنجہ فرمانے کی زحمت دی گئی تھی بخدا یہ لوگ بلوچستان کی سرزمین اس کے لوگوں یہاں کی تہذیب و ثقافت سے واقف نہیں ہیں۔ایسے لوگوں کو لے کر بلوچستان کو کالونی کے طور پر پیش کرنے کی جو سعی کی جا رہی ہے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں