بلوچ قوم سے سچ کہنے کی ضرورت ہے؟
تحریر: حفیظ حسن آبادی
ویسے تو پورا پاکستانی سیاست تماشا ہے لیکن بلوچستان میں یہ تماشا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے یہاں فنڈز کے نام پہ اربوں روپے آتے ہیں مگر اجتماعی طور پر ہاتھ کی صفائی ایسے کہ مجال ہے کوئی جان سکے کہ پیسے خزانے سے کب پا س ہوئے کب بنک سے نکلے کب اور کیسے نوشی جان ہوئے کسی کو بھنک تک نہیں لگتی یہاں دریاوں کے بندات،اسکولوں کی عمارتیں،مسجدوں کی چاردیواریاں،کالجوں،یونیورسٹیوں اور انسٹی ٹیوٹ وغیرہ کے ہاسٹلوں اور سڑکوں کی جالیں پلوں سمیت ہڑپ ہوتے اور لوگ ماشائ اللہ حاجی سے الحاج اور سخی و غنی بنتے ہیں مگرکسی کو پکڑ کیلئے کچھ مواد دستیاب نہیں ہوتا۔
ریاست کے رویے کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں س پر تبصرے کا تقاضامعنٰی ندارد تاہم اس میں بلوچستان کے خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا عضومعطل والے کردار سے کوفت ضرور پہنچتا ہے۔وہ اپنوں کا درد سمجھتے ہیں اور یقیناً وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر قوم نہیں تو وہ بھی نہیں ان کا وجود اس وقت تک قابل قدر و بعد ازاں قابل برداشت ہے کہ انکے لوگ انکے پیچھے کھڑے ہیں جس دن اسلام آباد کویہ گماں گزرا کہ انکی اورانکے قوم کی راہیں الگ ہیں وہ اسی دن نہ قابل قدر رہیں گے،نہ قابل برداشت اور نہ قابل مصافحہ ٹھہریں گے۔
یہ جاننے کے باوجود ان کا روش نہیں بدل رہاتو اس پر آدمی فقط یہ سوچ سکتا ہے کہ انکی ذاتی منفعت کی طلب اتنی ہے کہ انھیں اس ضمن میں کچھ سننے اور سمجھنے نہیں دیتا اور وہ اس ہوا کے رخ کیساتھ چل رہے ہیں جو انھیں قوم سمیت بربادی کی کھائی کی طرف اڑالے جارہاہے۔اس میں افسوس کا ایک بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی انھیں ان بے راہ رویوں کی طرف توجہ دلائے تو بجائے اسے سننے اور سمجھنے یااسکے اٹھائے گئے سوالوں کا شائستہ جواب دینے یا بالاآخر اپنی اصلاح کرنے کے الٹا اس کے خلاف اپنے پیروکاروں کے زریعے کج بحثی، موضوع کو بدلنے اور کردار کشی کا ایک مہم چلاتے ہیں تاکہ اصل سوال درمیان سے غائب ہوجائے۔
بلوچستان کے قوم پرست(نام نہاد) ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں اور بار بار اسی نعرے کیساتھ اسمبلیوں میں منتخب ہوکر یا کراکر آئے ہیں کہ وہ قانونی طریقے سے بلوچوں کے حقوق حال کرکے ان کا تحفظ کریں گے۔چلو ایک لمحے کیلئے یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ اب تک کے انکے طویل کوششوں کا نتیجہ کہاں ہے؟
یہ لوگ کئی بار اعتراف کرچکے ہیں کہ انھیں گوادر، سائندک، ریکو ڈک کے معاملات سے اس حد تک دور رکھا گیا ہے کہ حتیٰ ان سے متعلق کسی بھی معاہدے سے بے خبر ہیں۔ اگر انکے علم میں کچھ ہے یا وہ بے خبر رکھے ہیں وہ دونوں صورتوں میں قوم کے مجرم ہیں اگر ان کے علم میں کچھ چیزیں ہیں اور وہ قوم سے ان استحصالی منصوبوں کو آگاہ کرکے انکے روک تھام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو مجرم ہیں اگر ان سے متعلق آگاہ نہیں مگر ادراک رکھ کرخدشات رکھتے ہیں لیکن کوئی عملی قدم اٹھانے سے گریزاں فقط خالی بیان بازی پر اکتفا کرتے ہیں تو بھی اپنی قومی زمہ داری پورا نہیں کررہے۔
انکی سیاست اور اقتدار میں ہوتے ہوئے یہاں انصاف، تعلیم،صحت،آبنوشی،زراعت وغیرہ ہر شعبہ دوسرے سے زیادہ ایسے زبوں حالی کا شکار ہے کہ جسے آدمی دیکھ کر حیرت زدہ نہیں بلکہ خوفزدہ ہوتا ہے کہ یہ پستی کا کونسا معیار ہے جو یہاں کے لوگوں کے زندگی کا جزلاینفک بنایا گیا ہے اور یہ سوچنے مجبور کرتا ہے کہ آخر ان کا گناہ کیا ہے جو دنیا کے ثروت مند تریں زمین کے مالک ہوتے ہوئے ایکسوویں صدی اور سوشل میڈیا کے دو¿ر میں کہ جس میں دنیا واقعی ایک گاوں میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں ہر ایک دوسرے کے ہر حال سے باخبر رہتا ہے مگر یہ اپنے کسمپرسی اوربیچارگی میں تنہا ہیں جیسے وہ اس دنیا میں نہیں بلکہ کسی اورسیارے میں رہتے ہیں۔
ان مسائل کی موجودگی میں ایک اور مسلہ انتہائی گھمبیر ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اپنی ناتوانیوں اور کوتائیوں کوماننے کے بجائے ان کا دفاع کرکے قوم کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں جو صورتحال کو مزید ابتر کرنے کا سبب بنا ہے۔یہ پچھلے دنوں کی بات ہے کہ بلوچ یک جہتی کمیٹی والے اپناکاروان لئے اسلام پہنچے وہاں بلوچ گمشدگاں کے لواحقین جو اکثر خواتین،بچوں اور بزرگ تھے انھیں اسلام آباد پولیس نے اذییتں دیں تو بی این پی کے لیڈر سردار اختر مینگل نے پریس کانفرنس کرکے اپنے گورنر کو اس فرمان کیساتھ اسلام آباد بھیجا کہ جاکر یہ مسلہ حل کرو اور اگر اسلام آباد نے یہ مسلہ حل نہیں کیا تو استعفٰی دے کر آنا مگر سب نے دیکھا کہ گورنر صاحب سے کچھ نہیں بنا بلکہ وہ بلوچوں کا مدد گار کم ریاست کا سہولتکار زیادہ دکھائی دینے لگا مختصر یہ کہ بلوچ مظلوموں کا تذلیل آخری دن تک جاری رہا اور آپ خالی ہاتھ و نامراد اسلام آباد سے لوٹے نا گورنر نے استعفٰی دیا اور نا پارٹی سربراہ نے قوم کے سامنے اس بات کی وضاحت کو لازمی سمجھا کہ ان کا گورنر جس کا استعفٰی انھوں نے مسلے کے حل سے مشروط کیا تھایہ وعدہ پورا نہیں ہوسکا
یہ لوگ ایک طویل عرصے سے یہی سستی شہرت والی روش بلوچ لاپتہ افرادکے بازیابی پر بھی اپنائے ہوئے ہیں جب یہ لوگ کسی نہ کسی طرح حکومت میں ہوتے یا اتحادی ہوتے ہیں اور اگر کوئی ماورائے عدالت لاپتہ برآمد ہوتاہے تو یہ لوگ اسکی برآمدگی کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن کوئی اسی دو¿راں غائب کیا جاتاہے تو یہ کچھ نہیں کہتے کہ اسمیں انکی لاچاری یا نااہلی کا کہاں تک عمل دخل ہے۔
حرف آخر: یہ بات تکلیف دہ ضرور ہے کہ بلوچ قوم اجتماعی سزا کاٹ رہی ہے اور کوئی اس کا چارہ گر نہیں حکومتیں آتی جاتی ہیں اس دربدری و خاک بسری پرہمدردی و مسلے کو سمجھنے کے بیانات بھی دئے جاتے ہیں مگر بدلتا کچھ نہیں چہرے بدل جاتے ہیں مگر نہ زنجیروں میں جھکڑا بلوچ کا تقدیر بدلتا ہے اور نہ ا س پر زیادتیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔اسمیں سب سے زیادہ تاسف اس بات کی ہورہی کہ کوئی اس سے سچ کیوں نہیں کہتا کیوں اسے جھوٹی تسلیاں دیتا ہے۔راسکوہ پر دھماکے کے وقت ا س وقت کے وزیراعلیٰ پاکستانی وزیراعظم کے ڈرائیور کے طور پر راسکوہ تک گاڑی ڈرائیو کرتے رہے،بی ایس او کے نوجوانوں سے نعرے لگوائے کہ "نواز شریف قدم بڑھاو¿ ہم تمہارے ساتھ ہیں "لیکن آج فرماتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مخالفت کی تھی۔ایسی غلط بیانی سے کیا حاصل۔شہیدنواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے وقت اسی پارٹی نے اپنے پارلیمان ممبران سے استفعٰی دینے کا کہا دوتین نے استفعٰی دے دیا ایک نے استفعٰی دئیے بغیرملک چھوڑ دیا آخر میں ڈیڑھ دو سال بعدآکر سینیٹ سے اپنے غیر حاضری کے وقت کے تمام مراعات لئے اس شاطرانہ چال پر پارٹی کا موقف آج تک نہیں آیا کہ یہ سب کیا چکر ہے؟ یہ ایک پارٹی کی بات نہیں بلکہ یہ بات ان تمام پارٹیوں اور عناصر پر صادق آتی ہے جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کالم کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے صرف بڑی غلطیوں اور وعدوں کی طرف اشارہ کیا ہے اگر سب گننے لگ جائیں تو ہزارصفحوں پر کتا ب بھی کم پڑجائے۔مختصر یہ کہ بلوچ قوم بہت حاجز آچکی ہے اگریہ جماعتیں اس کے زخموں کا رفو نہیں کرسکتے تو اسے جھوٹی تسلیاں بھی مت دیں۔ آپ حضرات جس مقصد کیلئے پارلیمنٹ جاتے ہیں وہی انھیں بتائیں اس سے انھیں ایک بار تکلیف ہوگی جو بار بار کی مایوسی اور جھوٹی امیدوں کے سہارے رہنے سے بہتر ہے۔اس سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی مجبوری سمجھ کر بار بار آپ کی چوکھٹ پر فریاد کے ساتھ آکر آپ کو تنگ نہ کریں اوراپنے نجات کیلئے کوئی دوسرادر تلاش کریں جو ممکن ہے انکے دکھوں کا مداوا کرنے سبیل ثابت ہو۔