دہلی ہائیکورٹ نے تبلیغی جماعت کا مرکز کھولنے کی اجازت دیدی
نئی دہلی :نئی دہلی کی ایک عدالت نے تبلیغی جماعت کے مرکز کو مکمل طور پر کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے کہاہے کہ جب دیگر مذہبی مقامات پر ایسی شرائط نہیں ہیں تو تبلیغی جماعت کے مرکز پر بندشیں کیوں عائد ہیں؟بھارتی ٹی وی کے مطابق اس سے قبل مرکزی حکومت نے اس مرکز کو اس شرط پر کھولنے کی اجازت دی تھی کہ وہاں صرف محدود تعداد میں افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن عدالت نے کہا کہ جب دوسروں پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہے تو رمضان کے دوران بنگلہ والی مسجد کو بھی پوری طرح سے کھول دیا جانا چاہیے۔تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک وکیل مجیب الرحمن نے میں کہاکہ عدالت نے مسجد کو کھولنے کے احکامات دے دیے ہیں تاہم کورونا سے متعلق حکومت کی تمام گائیڈ لائنز پر عمل کرنے کی بھی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ان کے مطابق پہلے اس مسجد میں صرف پانچ افراد کو نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی پھر جب عدالت میں کیس گیا گیا تو پولیس نے پچاس افراد کی اجازت دی تھی تاہم اب اسے پوری طرح سے کھولنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید بتایاکہ پولیس نے اس معاملے میں کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے اپنی مرضی تھوپ رکھی تھی اور من مانی سے کام لیا تھا اس لیے اس معاملے میں عدالت نے بعض پولیس افسران کی سرزنش بھی کی ہے۔اس سلسلے میں دہلی پولیس اور مرکزی حکومت نے عدالت کے سامنے یہ موقف پیش کیا تھا کہ تبلیغی مرکز میں ایک وقت میں صرف 20 افراد کو ہی نماز کی اجازت ہونی چاہیے۔ حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ اس کے لیے 200 افراد کی شناخت کرنے کے بعد ایک لسٹ تیار کر لی جائے اور انہیں میں سے صرف بیس کو ایک وقت میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہو۔ لیکن جسٹس مکتا گپتا نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک کھلا مقام ہے۔ اور ان کے پاس کوئی خاص عبادت گزاروں کی فہرست تو ہے نہیں اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔جسٹس گپتا نے کہاکہ آپ مذہبی مقامات سے متعلق متعدد نوٹیفیکیشن جاری کرتے رہے ہیں، تو کیا اس کے ذریعے ایک وقت میں کسی مذہبی مقام پر اجتماع کے لیے آپ نے 20 افراد کی پابندی عائد کر رکھی ہے؟ آپ نے ہر مذہبی مقام کے لیے اجتماع کی تعداد کیا محدود کر رکھی ہے؟اس کے جواب میں مرکزی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی بلکہ مذہبی مقامات کی انتظامی کمیٹیاں خود ایسے فیصلے کرتی ہے۔ تاہم نظام الدین کے مرکز کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اس پر جج نے کہاکہ تو بالاخر آپ نے یہ فیصلہ اس انتظامیہ پر ہی ڈال رکھا ہے کہ وہ سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی سہولت کی مناسبت سے اپنا راستہ منتخب کرے۔جج نے کہا کہ کوئی بھی شخص مندر مسجد اور چرچ میں جب چاہے عبادت کے لیے جا سکتا ہے اس کے لیے خاص دو سو افراد پر مبنی فہرست کیسے تیار کی جا سکتی ہے، کسی بھی ایسے مذہبی مقام کے لیے ناموں کی فہرست کیسے طلب کی جا سکتی ہے۔ آپ کی شکایت وہاں پر قیام سے متعلق ہوسکتی ہے تو ابھی تو رمضان میں اسے صرف نماز کے لیے کھولا جا رہا ہے۔


