حدیبیہ پیپرملز کیس‘ نئی تفتیش کا فیصلہ

بعض نئے حقائق بالخصوص براڈ شیٹ کیس سامنے آنے کے بعدحکومت نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی از سرِ نو تفتیش کا فیصلہ کر لیا ہے۔تفتیش ایف آئی اے کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب سے واپسی کے فوراً بعداعلیٰ سطح کے اجلاس میں متعلقہ سمری منظور کر لی جو اس ضمن میں اجلاس میں زیر بحث لائی گئی۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ نئے حقائق سے ظاہرہوا کہ نیب نے اس مقدمے میں ملزمان سے ملی بھگت کی اور خودہی ایسے غلط فیصلے کئے ہیں جس کافائدہ ملزمان کو پہنچااور وہ یقینی سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ ورنہ یہ تو بڑا سیدھاسادہ(open and shut) کیس تھا، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا45صفحاتی تحریری حلفیہ بیان بطور وعدہ معاف گواہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، اس میں قاضی فیملی کے جعلی اکاؤنٹس کی تمام تفصیلات درج ہیں اور بعد میں کی جانے والی کھربوں روپے کی کرپشن بھی اسی انداز میں کی گئی ہے۔ جعلی اکاؤنٹس والا فارمولہ آزمایا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے مشیر خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو مقدمے کی تیاری کی ہدایت کر دی ہے۔یہ کیس اپنی اہمیت کے لحاظ سے روزاول سے ہی ملکی اور عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔اگر حکومت نے اپنے دعوے شواہد کی صورت میں عدالت میں پیش کردیئے اور عدالت از سرنوتفتیش سے مطمئن ہوگئی تو حدیبیہ پیپر ملز کیس واقعتاً ایک تاریخ ساز کیس ثابت ہوگا۔اس کے اثرات ہمہ جہتی ہوں گے ایک جانب شریف فیملی کا سیاسی کردار ختم ہوجائے گا اور دوسری جانب وہ سارے افراد بھی اپنے کئے کی سزا بھگتیں گے جو آج تک بچے ہوئے ہیں۔براڈ شیٹ کیس میں نہ صرف ملزمان نے دانستہ عدالت سے ایسے شواہد اورحقائق چھپائے ہیں بلکہ عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے اس کی روزروشن کی طرح واضح مثال لندن سے بھجوائے گئے وہ دستاویزی ثبوت ہیں جن کی عدم فراہمی ملزمان کواصل مقدمے میں سزا سے بچانے کا سبب بنی۔جبکہ ملزمان جانتے تھے کہ یہ دستاویزات نیب کی تحویل میں ہیں اور عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بینچ کے سامنے بآسانی پیش کی جا سکتی تھیں اورعدالتی حکم پر متعلقہ محکمے اور ذمہ دار افسران کا فرض تھا اصل دستاویزات پیش کردیں،اس لئے کہ فوٹواسٹیٹ کاغذات پر ملزمان کو سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔ بہر حال اسے ملزمان کی بدقسمتی اور عوام کی خوش نصیبی کہہ سکتے ہیں کہ براڈ شیٹ کیس نے مقدمے کو نئے شواہد اورمطلوبہ دستاویزات تک پہنچنے کی راہ دکھائی۔ شایدابھی لیگی رہنما اور ترجمان نیب کی تحویل میں موجود مطلوبہ دستاویزات کی قانونی اہمیت اور اثرات کی گہرائی، گیرائی اور وسعت سے کما حقہ‘واقف نہیں ہیں یا ملزمان سے دیرینہ جذباتی،روحانی اور گہرے سیاسی تعلق کی بناء پردانستہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت یہی مؤقف اپنانے پر مجبور ہیں۔ اپنے ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات سے بالا تر ہوکر قومی یاعوامی مفاد میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔دیرینہ وابستگی اور لگاؤ دیر تک اور دور تک تعاقب کرتے ہیں لمحوں میں اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ لیکن سچائی اور حقائق کو کچھ عرصے تک چھپانا ممکن ہوتا ہے،مگر ہمیشہ کے لئے چھپانا ممکن نہیں۔ پاکستان کے معروف ماہرِ قانون بیرسٹراعتزاز احسن حدیبیہ پیپر ملز کیس کے بارے میں اپنی رائے ٹی وی ٹاک شوز میں ایک بارپھر کہاہے:اس مقدمے کی نوعیت فوجداری (criminal)ہے، دیوانی (civil)نہیں اس لئے زائد المیعاد (limitation)والی شرط کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔چنانچہ جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کا اسے ٹائم بار کہنا درست نہیں۔نیب کا رویہ اور اس بارے سپریم کورٹ کے معزز ججز کے ریمارکس بھی ریکارڈ پر ہیں، سب کو یاد ہیں۔براڈ شیٹ کیس کی تفصیلات سے صرف نظر آسان نہیں۔اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے برطانوی عدالت میں برطانیہ میں اپنے سفارت خانے کے اکاؤنٹس سے بھاری جرمانہ ادا کیا،اور پھر تمام شواہد چھپانے کی دانستہ کوشش بھی سامنے آچکی ہے۔ لہٰذا بادیئ النظر میں حالات شریف اور زرداری فیملی کے لئے ماضی جیسے نہیں رہے، ان کا دفاع کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔نئے شواہد سامنے آنے کے بعد یہ کہنا آسان نہیں ہوگا کہ یہ کیس سیاسی انتقام کے طور پر بنایا گیا ہے۔اول تاآخر ایک کرمنل کیس ہے۔ماہرین قانون کی بھاری اکثریت اس رائے کی حامی ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اقبالی بیان قانونی اعتبار سے ایک ٹھوس شہادت ہے۔لیگی قیادت کے لئے اسے جھٹلانا خاصا مشکل کام ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور الجھا ہوا کیس تھا اور ہے،1990کی دہائی کے اوائل میں اس کا ارتکاب ہواجب لندن میں زیر بحث (متنازعہ) فلیٹس خریدے گئے،نون لیگ کے متعددسینئر رہنما ان فلیٹس میں سیاسی میٹنگز میں شرکت کر چکے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے جانتے ہیں کہ یہ فلیٹ شریف فیملی کی ملکیت ہیں۔لیگی قیادت کو اس مقدمے کی تیاری حد درجہ سنجیدگی سے کرنا ہوگی، جذباتی نعرے بازی سے جو فائدہ ملنا تھا مل چکا،آنے والے دنوں میں جذباتی لفاظی کام، نہیں دے گی، قانونی استدلال کام آئے گا۔پی ایم ایل این کی اصل قیادت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کے دفاع کا وقت آ گیا ہے۔ماضی جیسے فیصلوں کی راہ بتدریج بند ہوتی جا رہی ہے۔ شاید دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت معاملات کو اپنی بے خبری کے باعث معاملے کو سطحی انداز میں دیکھ رہی ہے، اسے احساس نہیں کہ اس دوران وقت نے کون کون سے راز افشاء کر دیئے ہیں۔ مقدمات کا دفاع بھر پور قانونی تیاری سے کیا جائے، حالات کے تیوربتا رہے ہیں کہ سڑکوں پر فیصلے مانگنے والی حکمت عملی سود مند نہیں ہوگی۔ قانونی جنگ اگر غیر قانونی انداز میں لڑی گئی تو قانون اپنی قوت منوا لے گا۔نون لیگ کی اصل قیادت کا فوری رد عمل سامنے نہیں آیا،اس سے یہی تأثر ملتا ہے کہ اسے حالات کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے۔نون لیگ کے صدرشہباز شریف کی سربراہی میں آج اس مسئلے اور تازہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔عید بعد جیسے ہی عدالتیں کھلیں گی فریقین اپنا مؤقف لے کر میدان میں اتریں گے۔ نائب صدر مریم نواز کی خاموشی بلاوجہ نہیں،جانتی ہیں کون سے فیصلے کب اور کہا ں کئے جاتے ہیں۔ خود کہہ چکی ہیں:”ڈی جی آئی ایس پی آرسے زیادہ باخبر ہیں“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں