امریکی فرمائشوں کا سلسلہ جاری ہے

امریکہ رواں ماہ کے آخر تک افغانستان سے (ممکنہ حد تک) نکل جائے گا۔اس نے 20برس قبل ملا عمر کی طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کوامریکہ یا سعودی عرب کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلاء شدید غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا افغانستان پر حملہ آورہوا کہ افغانوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دے گا۔یادرہے انسانی ارتقاء کایہ پہلا دورسمجھا جاتا جب انسان نے صرف پتھر کااستعمال سیکھا تھا اور غالباً غاروں میں رہتاتھا۔پتھر رگڑ کر آگ بھی جلا لیتاتھا۔ امریکہ یہ بھول گیا تھاکہ افغان ہر قسم کااسلحہ بنانا اور استعمال کرنا جانتے ہیں۔موٹر سائیکل جیسی سادہ، مفید اور سستی ترین سواری کو انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے تباہ کن بم میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں،روس کے خلاف امریکی جنگ میں امریکہ کے فراہم کردہ اسٹنگر میزائل کندھے پر رکھ کر فائر کر کے روس کو 80کی دہائی میں افغانستان سے نکال چکے ہیں۔پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہیں۔(5ہزارفوجیوں اور 70ہزار سے زائد سویلینز کا قتل، اور150ارب ڈالر مالیت کی املاک کی تباہی کو اینٹ سے اینٹ بجانا کہہ سکتے ہیں)۔پاکستان کے صدر کو نشانہ بنانا ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ایک ایک دن میں متعدد بار حملے اس امر کا ثبوت ہیں۔30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں،جو افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔اسے انسانی تاریخ کے ناقابل یقین واقعات میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے کہ ان حیران کن تجربات اوربھاری نقصانات کے باوجودپاکستان دنیا کے نقشے پر ثابت و سالم قائم ہے،دولخت ہونے صدمہ 70کی دہائی میں برداشت کر چکاتھا۔ اس کا افغان وار سے کوئی تعلق نہیں۔1998میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب بھی ریکارڈ پر ہے۔ماناکہ امریکہ 1945میں جاپان کے دو شہروں (ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر خودکو دنیاکی پہلی ایٹمی طاقت منوا چکا تھا۔امریکہ کا دعویٰ ہے کہ جاپان کے دوشہروں پر ایٹم بم اس نے ”عالمی امن“ قائم کرنے کے لئے گرائے تھے۔یہی دعویٰ وہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کے منصوبے کے حوالے سے بھی 20 سال سے کرتا چلا آیا ہے۔عراق پر بمباری کا یہی عذر پیش کرتا ہے۔امریکہ کے ذہن میں عالمی امن قائم کرنے کاخبط 1945سے سمایا ہوا ہے۔جس ملک کو تباہ و بربادکرنا چاہتا ہے پہلے اسکے خلاف دہشتگرد ہونے اور دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کرتا ہے،لگاتار پروپیگنڈا کرکے عالمی رائے عامہ کواپنے حق میں ہموار کرنے ڈرامہ رچاتا ہے، رائے عامہ مخالف ہو، تب بھی حملہ کر دیتا ہے۔عراق پر حملہ ایسی ہی ایک مثال ہے، دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں نے جمع ہوکر ریکارڈاحتجاجی مظاہرے کئے، مگر امریکہ نے عالمی رائے عامہ کا احترام نہیں کیا، عراق پرتباہ کن حملہ کر دیا۔18سال بعد وہاں سے بھی نکلنے کا اعلان کرکے سمجھتا ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلانے کے باوجود عالمی امن ایوارڈ کا مستحق ہے۔ پاکستان سے Do moreکی بجائے طالبان سے مخلوط حکومت بنوانے کی درخواست کرتاہے۔ Do moreکہنے کے لئے بھارت کو کئی دہائیاں پہلے اپنا اسٹینڈ بائی اسٹریٹیجک پارٹنر بنالیاتھا۔دیکھیں بھارت کیا جواب دیتا ہے؟ اور کیسے دیتا ہے؟ اسے چین مخالف ٹاسک دے رکھا ہے۔پاکستان نے امریکی دوستی کاخمیازہ بھگت لیا ہے، اب بھارت آزما کر دیکھ لے۔یاد رہے ایرا ن اور عراق بھی ایسی ہی امریکی دوستی کی عبرت ناک مثال ہیں۔ شہنشاہ ایران بھی کبھی نریندر مودی سے زیادہ امریکہ کے لاڈلے ہواکرتے تھے۔صدام حسین کا حشربھی فراموش نہ کیا جائے۔افغان طالبان وہی کام کریں گے جو انہیں چین اور روس کرنے کا مشورہ دیں گے۔ پاکستان کاکام امریکی بدنامی سمیٹنے کاہے۔اشرف غنی حکومت کا ملبہ بھی پاکستان کے سر آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ افغان سفیر کی بیٹی کا جعلی اغوائی دعویٰ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔19جولائی کو پاکستانی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے تمام حقائق میڈیا کے روبرو پیش کر دیئے۔افغان حکومت کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔امریکی تھنک ٹینک سمجھ چکے ہیں کہ امریکی چوہدراہٹ کا دور اختتام پذیر ہونے کو ہے، لیکن اپنے عوام کے سامنے سچ بولنے کی ہمت نہیں۔دنیا فتح کو اپنا باپ بنانے کے لئے تیار نظر آتی ہے مگر شکست کو کوئی وارث نہیں ملتا۔تاریخ یہی بتاتی ہے۔۔۔۔دور کیوں جائیں؟ مسلم لیگ نون کے بیانیے کا معاملہ دیکھ لیں جولائی 2020میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں 10جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم پر پوری شدو مد کے ساتھ اس بیانیے کی ویڈیو لنک کے ذریعے رونمائی ہوئی، فوری طور پر ”بیانیہ“صرف نون لیگ کی میزبانی میں منعقدہ جلسوں تک محدود ہوگیا، آزاد کشمیر میں 45میں سے 6پر کامیابی کے بعد نون لیگ کے اندر بھی بحث کے لئے ایجنڈے پر آگیا ہے۔شہباز شریف کی مستعفی ہونے کی ”دھمکی“ کو سابق نون لیگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ افواہ کہہ رہے ہیں جبکہ نواز شریف کے ترجما ن اور سابق گورنر سندھ زبیر عمر ہلکے لہجے میں تسلیم کر رہے ہیں کہ دو بیانیے سے کارکن کنفیوز ہیں۔شہباز شریف ”دھمکی“ کے حوالے سے تاحال خاموش ہیں۔فیصلہ لندن میں مقیم نوازشریف کو کرنا ہے:”مریم۔۔۔۔یا شہباز؟“یہی فیصلہ بیانیے کا فیصلہ سمجھا جائے گا۔فیصلہ آسان نہیں۔نواز شریف کے لئے دونوں کم و بیش یکساں وزن رکھتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ انہیں اپنی صاحبزادی مریم نواز بہت عزیز ہیں مگر دوسری طرف نون لیگ کا مستقبل ہے جو حالات کی ستم ظریفی کے باعث شہباز شریف کی جیب میں پہنچ گیا ہے۔لیگی رہنماؤں کی اکثریت پہلے ہی تذبذب کا شکار تھی،حالیہ انتخابی مہم میں سب کا گھر بیٹھ جانا توجہ طلب ہے۔ فیصلہ مشکل اور نازک ہے۔ ذاتی انااور سیاسی سوجھ بوجھ کا سوال بھی آڑے آسکتا ہے۔واضح رہے بیانیہ ہر دوسرے دن تبدیل ہو جائے تو بیانیہ نہیں رہتا۔تاخیر بھی نقصان دہ ہو گی۔ سیالکوٹ کی سیٹ کا بڑے مارجن سے ہاتھ سے نکل جانا خطرے کی گھنٹی ہے۔جبکہ یہ خواجہ آصف کا علاقہ ہے اور وہ نواز شریف کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔یہ مزاحمت اور مفاہمت میں کسی ایک کے چناؤ کا وقت ہے، کارکنوں کی اکثریت کاخاموشی سے گھر بیٹھ جانا مفاہمت کے بیانیہ کی جانب جھکاؤ کا مظہر ہے۔زمینی حقائق یہی کہتے ہیں۔نون لیگ اپنے نون لیگی مزاج کے ساتھ چل سکتی ہے۔اس کے برعکس چلانے کی کوشش کا نتیجہ پی ڈی ایم سے مختلف نہیں نکلے گا۔نواز شریف ایک سے زائد مواقع پرمسکراتے ہوئے خود بھی اعتراف کرتے رہے ہیں؛ مجھے کہا:”قدم بڑھاؤ نواز شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں“،میں نے قدم بڑھایا اور پیچھے دیکھا تو کوئی ساتھ نہیں تھا“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں