موجودہ صورتحال میں فیصلہ سازی، صحت اور اقتصادی پالیسی کی افادیت پر اہم سوال اٹھ رہے ہیں، شیری رحمان

اسلام آباد،نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کورونا وائرس کے دوران پیدا ہونے والے بحران کو نمٹنے کے لئے پارلیمانی کردار پور زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید بحران سے دوچار ہے، اور فیصلہ سازی، لاک ڈاؤن، صحت اور اقتصادی پالیسی کی افادیت پر اہم سوال اٹھ رہے ہیں، اس وقت میں پارلیمنٹ کا حکومت کی جانچ پڑتال، اخراجات کو مجاز بنانے، قانون سازی، اور مشکل اوقات کے دوران قیادت فراہم کرنے کے انتہائی اہم کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، موجودہ ہنگامی صورتحال میں بحث و مباحثہ، گفتگو اوراصلاحات کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بجا طور پر ہر طرف سے اتحاد کی پکار بڑھ رہی ہے، جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ، خصوصا سینیٹ آف پاکستان کا پہلا کام بحران کے وقت ہم آہنگی اور اتحاد پیداکرنا ہے اوراس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی بھی صوبہ پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کام ابھی تک کسی بھی پارلیمنانی فورم یا مشترکہ مفادات کونسل جیسے اہم آئینی فورموں کے ادارہ جاتی کے بغیر ایگزیکٹو اجلاسوں میں ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ متعلقہ قائمہ کمیٹیاں بحران میں ہونے والے فیصلوں کا مشورہ یا آڈٹ نہیں دے سکی ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں حکومتوں کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کی شفافیت پر تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔معلومات اور حقائق کی عدم موجودگی، صحت کے بحران کی ناتجربہ کاری، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی عوامی سطح پر خدشات میں اضافہ کررہے ہیں جس کی وضاحت، سمت اور قیادت کی ضرورت ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے کمیٹیوں کے غیر فعال ہونے پر اپنے بیان میں کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کو علم اور اطلاعات کی ضرورت ہے۔ صحت کے اعداد و شمار، اپنے موجودہ ادارہ جاتی اور مالی خلیج کے ساتھ صوبوں کے مابین تنازعات کی ہڈی بن چکے ہیں، جو باخبر رائے کی عدم موجودگی میں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ فیصلے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قرنطین اور بارڈر مینجمنٹ جیسے معاملات میں ناقص فنی نگرانی کا باعث بنتے ہیں۔شیری رحمان نے کہا کہ اس سے عوام میں پالیسی اور اس کے نظم وضبط کے بارے میں تفتیش، ڈاکٹروں کو حفاظتی پوشاک کی فراہمی، عوامی اجتماعات کی نگرانی اور ریاستی یکسانیت کے بارے میں سنجدہ سوالات کھڑے ہوئی ہیں۔ٹائیگر فورس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رضاکارانہ گروہوں جیسے ٹائیگر فورسز کو امدادی فراہمی کے لئے متحرک کیا جارہا ہے، اسی طرح صوبوں کی قیادت کے مابین مقابلہ کرنے والے عمل نے ہم آہنگی کی پالیسی کے بجائے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں ریاست اور عقیدے کے مابین خلاء بڑھ رہا ہے، لوگ نماز کے اجتماعات کے لئے ریاستی قواعد و ضوابط بغیرعبادات کے مقامات کا رخ کررہے ہیں جو وائر کو پھیلاؤکا سبب بن سکتا ہے۔شیری رحمان نے کہا کہ بیشتر ممالک کی طرح، پاکستان کو بھی اتفاق رائے پر مبنی پالیسی کی تشکیل دینے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے معاشیات اور زندگی کی حفاظت کے مابین قابل عمل توازن پیدا ہوتا ہے،اور جس سے غیر محفوظ غیر رسمی شعبے، یومیہ اجرت مزدوری اور ایس ایم ایز پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔وفامعاشی پیکج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ چلائے گئے معاشی تحفظ کے پیکیجز، جن میں کمزور گھرانوں کو راشن کی فراہمی کے معاملے میں عوامی خدمت اور ریاستی ریلیف شامل ہے، ان کے ڈیزائن، ترسیل اور یہاں تک کہ برانڈنگ نے کئی ایسے معاملات اٹھائے ہیں جن کی پارلیمنٹ کو نگرانی کرنی چاہئے تھی۔ آئینی طور پر بنایا گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بغیر کسی ترمیم کے احسان پروگرام نام دے کر پیپلز پارٹی کو مثبت پیغام نہیں دیا گیا۔ شیری رحمان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے غذائی تحفظ کے بارے میں اقوام متحدہ کی انتباہات نے پاکستان کی دیہی معیشت کے لئے شدید خدشات کو جنم دیا ہے، جبکہ شہری مراکز کو پہلے ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس کاایپی سینڑکا درجا دیا ہے۔ زندگی اوعوام کو لاحق خطرات سنگین ہیں۔ باضابطہ معیشت کے ساتھ ساتھ سپلائی چین کو بھی ایسی صورتحال میں یقینی بنانا ہوگا جہاں معاشرتی دوری کی ضرورت نے معیشت کے ہر حصے میں غیر معمولی رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ ایک ایسے ملک کے لئے جو دنیا میں فی کس پانی کے استعمال کی اعلی ترین سطح میں شامل ہوتا ہے، پانی اور کھانے کی حفاظت پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ کلیدی کمیونٹی پوائنٹس پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کم لاگت والے صابن کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔گرتی ہوئی شرح نوم پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ملک کے ان تمام شعبوں کو ان پٹ اور بصیرت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں عوامی قرضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور منفی شرح نمو کی خطرناک پیش گوئیاں بڑھ رہی ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے قرض کی سخت کی شرائط ہمارے لئے کلیدی خدشات میں شامل ہیں، خاص طور پر جب عالمی بینک نے شرح نمو میں سنگین کمی کی طرف اشارہ کیاہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ذمہ داری 41 کھرب روپے ہے، جو ملک کے جی ڈی پی کا تقریبا 94 فیصد ہے،عوام اور ملک کی مالیاتی وسعت اور موجودہ بحران میں اس کی نظرثانی کی ضرورت ہے۔خطے پر بات کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ خطے میں بڑھتی کشیدگی سے پاکستان کو بھی خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت نے جنگ کا طبل بجانے کے بعد اچانک سارک ملاقاتیں طلب کی ہیں، پاکستان کوعلاقائی اعتماد سازی کے راستوں پر بات چیت کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی خصوصا لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی گولہ باری سے، اور وزیر اعظم مودی کی خارجی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے ساتھ ناقابل قبول زیادتی کے واقعات جاری ہیں، وہاں بیماری کا خطرہ واضح طور پر زیادہ ہے جس میں شفافیت یا رسائی نہیں ہے۔دوسری طرف کابل کی امریکی انخلا کے تناظر میں کورونا وائرس کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی تشویش ناک ہے۔شیری رحمان نے کہا کہ دستورکا آرٹیکل 67 1پارلیمنٹ کو اپنے طریقہ کار اور اس کے کاروبار کو چلانے کے لئے قواعد بنانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ آئین پاکستان ایک زندہ دستاویز ہے جو بین الاقوامی بحرانوں میں اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کورونا وائرس دوسری عالمی جنگ کی شدت کے پیمانے پر پورا اترتا ہے جس نے ہر چیرکے ساتھ جمہوری طریقہ کار کوبھی متاثر کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں