پشتو طلوع ہورہی ہے

عبدالکریم
ماہرین لسانیات کے مطابق جو زبانیں جمود کی شکار ہوجاتی ہیں وہ فنا ہوجاتی ہیں اور ایسی زبانوں کو مردہ زبانیں کہا جاتا ہے فنا کے خطرے سے دوچار زبانوں کی تعداد2400کے قریب ہیں ۔ماہرین کے مطابق 14دنوں میں ایک زبان فنا ہوجاتی ہے اور اس وقت دنیا سے 231 زبانیں مکمل طور پر مٹ چکی ہیں۔ جمودکی شکار زبانوں میں ایک زبان پشتو بھی تھی جو زمینی حالات و اقعات، تدریس ابلاغ اور مارکیٹ پر دیگر خطے کی دیگر زبانوں کی گرفت کی وجہ سے جمود کی شکار رہی ۔
اگر ہم ماضی قریب یعنی سویت یونین کا افغانستان پر یلغار سے اب تک زمانے کو دیکھیں تو اس دور میں پشتو زبان کو کافی نقصان پہنچا افغانستان اس دور میں مسلسل جنگ میں رہا اور اسی طرح پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقوں پر اس جنگ کے گہرے اثرات پڑے اس دوران نہ صرف پشتو زبان بولنے والے بڑی تعداد میں افغانستان سے ہجرت کرگئے بلکہ اس کے ساتھ پشتو پر دیگر زبانوں یعنی دری جو کہ فارسی زبان کی ایک شکل ہے اس کے ساتھ اردو زبان نے بھی پشتو زبان اپنا اثر تدریس اور ماحول کی وجہ سے اثر جمانا شروع کردیا ۔ پاکستان کی طرف رخ کرنے والے مہاجرین کے بچوں نے نصاب اردو میں پڑھنا شروع کردیا اور افغانستان میں سرکاری معاملات کے ساتھ نصاب زیادہ تر دری زبان پر تعلیمی اداروں میں پڑھانے لگا حتیٰ کہ افغانستان میں رہنے والے اکثر پشتون خط و کتابت دری میں کرتے تھے اور یہاں تک کہ مسجد میں پڑھنے والے بچوں کو خط و کتابت کے طریقے دری زبان میں ایک پشتو بولنے والا ملا پڑھانے لگا حالانکہ پشتو افغانستان کی سرکاری زبان ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی صورتحال اس مختلف نہیں تھی اور آج تک پشتو کے ساتھ سرکاری سطح پر اس طرح افزائی نہیں کیجاتی ہے جتنا پشتو کا حق ہے حالانکہ پشتو زبان بولنے والے پشتون نسل نسلی بنیاد پر دوسری بڑی نسل ہے ۔پشتو کے ساتھ ظلم صرف حالات نے نہیں کیا بلکہ پشتو بولنے والے بھی اس میں برابر شریک جرم رہے پشتو زبان بولنےوالوں نے اپنی زبان سے زیادہ دری اور اردو کو متعبر اور برتر جاننے لگے اور اس پروپیگنڈے کے شکار ہوگئے کہ پشتو دوزخ، دیووں اور جنات کی زبان ہے تو اس لیے بہت سے پشتون والدین نے اپنے بچوں کو اردو اور اٖفغانستان میں دری زبان گھر میں سکھانا شروع کردیا اور انہی زبانوں میں پھر وہ گھر میں بات کرنے لگے نصاب کا تو اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ پشتونوں نے اپنی زبان کے بجائے تعلیم اردو اور دری زبان میں حاصل کی اور اس دوران ایک ایسی نسل پروان چڑھی جو پشتو لکھنے سے قاصر رہی اور بہت سے تو اپنی مادری زبان بولنے پر شرماتے تھے۔
دوسری طرف ابلاغیات میں پشتو وہ مقام حاصل نہ کر پایا جو اس کا حق تھا جس سے پشتو کی ترقی ہوسکتی تھی آج بھی اٖفغانستان کی ابلاغیات کی صنعت پر دری زبان حاوی ہے اور پاکستان میں بھی پشتو زبان کے چند آدھ چینل ہیں وہ بھی نام کے حد تک ان چینلز میں پشتو چند الفاظ تک محدود ہے باقی ان چینلز پر اردو اور انگریزی ہی بولی جاتی ہے۔ یاد رہے پشتو دنیا میں 43نمبر پر ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے لیکن اس کی باوجود وہ کہی سالوں سے جمود کا شکار رہی لیکن ایک خوشنما ابلاغیات کی تناظر میں یہ ہے کہ باہر کی دنیا کے 18ممالک کے ریڈیو اسٹیشن سے پشتو پروگرام ہوتے ہیں لیکن جس خطے میں پشتون آباد ہیں وہاں پشتو کو نہ تو ابلاغیاتی زبان اور نہ مارکیٹ کی زبان بننے دیا، یاد رہے یہی دو ذرائع زبان کی ترقی کا وسیلہ ہیں۔
لیکن اب تھوڑی سی امید کی کرن پھوٹی ہے اب پشتونوں کی موجودہ نسل جو سماجی رابطہ کی ویب سائٹس کے ذریعے بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو رہی ہے اور بڑی حد تک منسلک ہوچکی ہے اور ان کی نظریات ایک دوسرے کے ساتھ اتنے متصادم نہیں ہیں جتنے پہلے تھے وہ اب آپس میں رابطے کے طور پر پشتو زبان کو استعمال کررہے ہیں وہ نوجوان جو پشتو لکھ نہیں سکتے یا صحیح تو دوسری زبانوں کے غالب ہونے کی وجہ سے صحیح بول نہیں سکتے اب وہی نوجوان پشتو سیکھ رہے ہیں اور جن چیزوں کے بارے میں اسے آگاہی نہیں ہے اس کے بارے میں سوالات سماجی رابطے ویب سائیٹس پر بنے صفحات پر کررہے ہیں اور بہت سے نوجوان جو پشتو زبان کے شاعر اور ادیب ہیں یا پشتو زبان سے بلد ہے وہ رضاکارانہ طور نئی نسل کو پشتو سکھانے کی تگ و دو میں ہیں اور وہ یہ کام روزانہ کی بنیاد پر کررہے ہیں اور اس کے ساتھ وہ اپنی تاریخ اور اپنی زبان کی افادیت پر بات کرتے ہیں اور یہ بات ایک خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر جہاں جہاں پشتون آباد ہیں وہ پشتو کے اس ارتقائی عمل میں شامل ہیں۔ ماہرین پشتو کی ترقی کی اس عمل کے پیچھے عوامل پشتون قومی تحریکوں کو قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے اوپر ذکر شدہ پرآشوب دور میں پشتو کو جس نے کسی حد تک علمی و ادبی سطح پر زندہ رکھا وہ پشتو زبان کے شعراء اور ادیب تھے اور ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں انہی شعراء و ادیبوں کی خدمات کا ثمر ہے کہ پشتو پھر سے طلوع ہورہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں