ہائبرڈسسٹم

تحریر: انورساجدی
دوسال ہونے کو آئے ہیں لیکن موجودہ حکومت کے معاملات سیٹل نہیں ہورہے ہیں گورننس کااتنا براحال ہے کہ کابینہ کے سینئروزیرشیخ رشید نے گزشتہ روز فرمایا کہ اس ملک میں بڑے بڑے چینی چور آٹا چور کوکوئی پکڑنے کی جرأت نہیں کرسکتا لیکن لال حویلی کے آس پاس جو دکاندار ہیں انہیں شٹر کھولنے پرجیلوں میں ڈال دیا گیاہے۔
اطلاعات کی وزیر کوبرطرف کردیا گیا ہے کہ ان پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے تھے انکی جگہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کومعاون خصوصی برائے اطلاعات کاقلمدان سونپ دیا گیا ہے گزشتہ روز سابق فوجی اورنامور صحافی اکرام سہگل نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئے وزیراطلاعات شبلی فراز صرف پارلیمانی اموردیکھیں گے باقی محکمہ کے جملہ معاملات کے کرتادھرتا جناب عاصم سلیم ہونگے ایک لحاظ سے یہ عمران خان کوکمک پہنچانے کی کوشش ہے لیکن دراصل یہ اس دور کے سب سے نازک حساس اور کارآمدشعبہ کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہے جہاں تک محکمہ اطلاعات کا تعلق ہے تویہ بہت پھیلا ہوا ہے لیکن ازکار رفتہ اورناکارہ ہے جو سسٹم50سال پہلے تھا وہ اب بھی یہاں کارفرما ہے۔اس کا ایک اہم حصہ پاکستان ٹیلی ویژن ہے جس کے وسائل تمام پرائیویٹ چینلوں سے زیادہ ہیں لیکن اس کی کارکردگی سب سے پیچھے ہے گماں غالب ہے کہ جرنیل صاحب پی ٹی وی سمیت محکمہ اطلاعات کے تمام ماتحت اداروں کو ڈیجیٹلائز کریں گے۔پی آئی ڈی کی تنظیم نوکریں گے اور اشتہارات کانیانظام لائیں گے یہ ایک طویل صبرآزما اور مشکل کام ہے لیکن باجوہ صاحب کو یہ ٹاسک دیدیا گیا ہے فردوس عاشق کی وزارت کے آخری ایام میں پی آئی ڈی کے تمام اختیارات کومرکز میں مجتمع کردیا گیا تھا صوبائی دفاتر ناکارہ بنادیئے گئے تھے اشتہارات کی پالیسی اس طرح بنائی گئی تھی کہ سات اخبارات کونیشنل نیوزپیپرقراردے کر اشتہارات کافلو انکی طرف کردیاگیا تھا ان اخبارات کواشتہارات کے اجراء کیلئے معاون خصوصی نے اپنی اشتہاری کمپنیاں بنائی تھیں جبکہ قانون کے تحت یہ کنفلکٹ آف انٹرسٹ تھا اور معاون خصوصٰی کواسکا اختیار نہیں تھا رولز کے مطابق یہ بدترین کرپشن کی ایک قسم تھی اوپر کے سات اخبارات کے بعد جن سینکڑوں ڈمی اخبارات کواشتہار جاری کئے جاتے تھے ان کا میرٹ زیادہ سے زیادہ بولی لگتی تھی نئی تبدیلیوں کے ساتھ یہ سلسلہ توتبدیل ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی بہت کچھ بدل جائیگا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں گورنر ہاؤس کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ صحافت غلط راستے پر جارہی ہے میں اس کا قبلہ بدل دونگا جوسرخے کمیونسٹ کافراس میں گھسے ہوئے ہیں میں انہیں سیدھا کردوں گا وہ زمانہ چونکہ مارشل لا کا تھا لہٰذا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایسا کہہ سکتا تھا لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اب ظاہری طور پر چیزیں اورہیں اصل میں کچھ اور ہیں۔یہ ہائبرڈ وارفیئراورہائبرڈ پروپیگنڈہ کادور ہے ضیاء الحق کے دور میں تو آدھے اخبارات حکومت کی ملکیت تھے اور واحد پی ٹی وی چینل ہی حکومت کا تھا اب چیزیں پھیل گئی ہیں درجنوں چینل ہیں سوشل میڈیا کے ہزاروں گروپ ہیں جوفیک نیوز کی زندہ فیکٹریاں ہیں ان امور کو سنبھالنا کسی ایک وزیرکاکام نہیں بلکہ تکنیکی ماہرین اور ڈیجیٹل میڈیا کے بزرجمروں کا کام ہے چونکہ سول حکومت ایسی ٹیم لانے میں ناکام رہی لہٰذا یہ کام براہ راست اپنے ہاتھوں میں لیا گیانظریاتی طور پر ایسی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائیگی جو یحییٰ خان نوابزادہ شیرعلی خان کی صورت میں لائے تھے موصوف نے ڈھائی سال کے عرصہ میں وہ کام کیا تھا جو ایوب خان11سال میں بھی نہیں کرسکے تھے حالانکہ وہ ڈیجیٹل دور نہیں تھا شیرعلی خان نے پہلے قدم کے طور پر تین سوصحافیوں کوملازمتوں سے نکلوادیا تھا انکی جگہ جماعت اسلامی کے راسخ العقیدہ صالحین کو لایا گیا تھا ہمارے ایک استاد حضرت محمود احمد مدنی بھی ان لوگوں میں شامل تھے انہونے پی ایف یو جے کی جگہ نیشنل یونین آف جرنلسٹ بنائی تھی اور اسکے مرکزی صدرمنتخب ہوئے تھے شیرعلی خان نے ایک بڑی ٹیم تشکیل دی تھی جس کا مقصد قائداعظم اورعلامہ اقبال کے نئے اقوال تیار کرنا تھے۔اس عمل کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ پاکستان کی اساس نظام اسلام ہے اور یہ نظام قائداعظم اور علامہ اقبال نے طے کردیا تھا چنانچہ آج جو ہم ان مشاہیر کے جواقوال پڑھ رہے ہیں وہ نوابزادہ صاحب کی ٹیم نے گھڑے تھے ایک طرف نوابزادہ شیرعلی خان آف پٹودی احیائے اسلام کی کی بنیاد رکھ رہے تھے تودوسری جانب انکے صدر آغا محمدیحییٰ خان قزلباش دنیا ومافیا سے بے خبر اقلم اختر عرف جنرل رانی میڈم نورجہاں بنگال کی بلیک بیوٹی اور اس طرح کی خواتین کے ساتھ محفلیں جمارہے تھے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جس طرح جماعت اسلامی نے ضیاء الحق کو مرد حق مردمومن قراردیا تھا اس نے بدبخت یحییٰ خان کیلئے بھی یہی القاب استعمال کیا تھا جماعت اسلامی کو خوش فہمی تھی کہ یحییٰ خان اسے اکثریت دلاکر ملک انکے حوالے کردیں گے لیکن عوامی لیگ اور بھٹو کاجو سونامی آیا وہ جماعت اسلامی کو خس وخاشاک کی طرح بہالے گیا جب انتخابی نتائج آئے تو 3سو کی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے حصے میں صرف چارنشستیں آئیں وہ بھی کراچی شہر میں بعدازاں انتخابی عذرداری کے نتیجے میں ایک نشست مولانا شفیع اوکاڑوی کوملی یحییٰ خان کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ملک کی نظریاتی بنیادرکھی۔
سول حکومت کاتختہ الٹنے کے بعد انہوں نے قوم سے پہلے خطاب میں کہا کہ نظام مصطفی کی جو حالیہ تحریک چلی تھی وہ اس سے کافی متاثر ہیں یعنی انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کردیں گے مرحوم نے ہرشعبہ اور ہرادارہ کو تہہ وبالا کردیا پورانصاب تبدیل کردیا افغان جنگجوؤں اورمغل بادشاہوں کو اپناہیرو قرادیدیا حالانکہ انکے دور میں ضیاء الحق کے آباؤاجداد سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
11سال برسراقتدار رہنے کے باوجود ضیاء الحق سنگین بگاڑ کے باوجود کچھ نہ کرسکے اور ان کا کام ادھورا رہ گیا لگتا ہے کہ اس ادھورے مشن کو جناب عمران خان کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی نئی ٹیکنالوجی نے میڈیا کو جتنا زیادہ گمراہ کیا ہے ایک بار پھر اس کا قبلہ درست کیاجائیگا جواینکرزیاکالم نگار نظریہ پاکستان کے ہمنوا نہیں ہونگے انہیں اس شعبہ سے الگ کرلیاجائیگا سوشل میڈیا کو ضابطہ میں لاکر ان گمراہ لوگوں کے یوٹیوب چینل اور فیس بک کی سائٹس بلاک کردی جائیگی اخبارات کی تعداد کوچند درجن تک محدود کردیاجائیگا جو پرائیویٹ چینل ہیں انہیں پی ٹی وی ٹو کی شکل دی جائے گی اشتہارات صرف تابع فرمان اور من پسند اخبارات کو جاری کئے جائیں گے ریجنل اخبارات کو اپنی موت آپ مرنے کیلئے چھوڑدیا جائیگا صوبوں کاکنٹرول سنبھال کر انکے وسائل بھی انکے حق میں استعمال کئے جائیں گے۔
کچھ عرصہ قبل ایک بڑے میڈیا کے سربراہ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے وزیراعظم کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے کہا کہ انکے خلاف کارروائی ختم کی جائے سرکاری اشتہارات پرپابندی دورکی جائے تو وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ حکومتی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرے گا اس موقع پر انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ حکومت کو سینکڑوں اخبارات کواشتہارات کے اجرأ کا درد سرلینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وفاق کے تمام اشتہارات صرف سات بڑے اخبارات اور انکے چینلوں کو جاری کئے جائیں انکی ملاقات کے بعد حکومت نے نئی میڈیا لسٹ بنائی جس میں انہی اخبارات اور چینلوں کانام شامل تھے جوانہیں دیئے گئے تھے انہی لوگوں کی سفارش پر حکومت نے ریجنل اخبارات کا25فیصد کوٹہ ختم کردیا تھا۔
جب فیلڈمارشل لا ایوب خان یحییٰ خان اور بھٹو نے پریس سے متعلق آمرانہ قوانین بنائے تھے تو ملک میں ٹریڈ یونین منظم تھی پی ایف یو جے صحافیوں کی ملک گیر تنظیم تھی اور متحد تھی نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر روشن خیال جماعتیں آمریت سے نبردآزما تھیں ایک طرف کے جے مصطفی منہاج برنا اور عثمانی مزاحمت کی علامت تھے تو دوسری طرف حبیب جالب فیض احمد فیض اور دیگر ترقی پسند دانشور مزاحمتی تحریک کے سرخیل تھے لیکن موجودہ دور میں ایسے مخلص اورقدآور لوگ موجود نہیں ہیں ایوب خان کے مارشل لاء کو حبیب جالب نے اکیلے لاہور کے مال روڈ پر چیلنج کیاتھا انہوں نے ایوب خان کے1962ء کے آئین کے بارے میں کہا تھا کہ
ہم ایسے دستور کو صبح
بے نور کونہیں مانتے
ایوب خان کے دور میں فیض صاحب نے اپنی شہرہ آفاق نظم ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے لکھی تھی انہوں نے لازم ہے کہ وہ دن بھی آئیگا لکھاتھااسی طرح آج سیاسی محاذ پر بھی کوئی مضبوط اپوزیشن موجود نہیں ہے کسی میں اتنی طاقت اور تاب نہیں کہ وہ سڑکوں پر آکر آمرانہ اقدامات کیخلاف مزاحمت کرے کئی لوگوں کو شک ہے کہ موجودہ حکومت اور اسکے بڑے ریاست کی واحد قدرمشترک 1973ء کے آئین میں بھی آسانی کے ساتھ تبدیلی لائیں گے نہ صرف18ویں ترمیم بلکہ وہ صدارتی نظام کی کوششوں میں بھی کامیابی حاصل کرلیں گے کیونکہ اندرون خانہ یہ باتیں شروع ہوگئی ہیں کہ پارلیمانی نظام ریاست کی اساس ور اسکی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور یہ اسلامی اقدار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جیسے کہ ضیاء الحق کاکہنا تھاکہ صدارتی نظام اسلامی اصولوں کے قریب تر ہے عین ممکن ہے کہ آئین کاحلیہ بگاڑ کر کوئی امیرالمومنین کاعہدہ وضع کردیاجائے اس سلسلے میں نوازشریف نے1998ء میں جو ترمیم بنائی تھی وہ من وعن موجود ہے اس ترمیم کو سینیٹ نے رد کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی میں پیش نہ کی جاسکی موجودہ حکومت اس ترمیم سے استفادہ کرسکتی ہے۔
ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور میں کہی گئی احمد فراز کی خوبصورت غزل پیش خدمت ہے۔
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کومحصور کرکے نازکرے
مراقلم نہیں کاسہ کسی سبک سرکا
جوغاصبوں کوقصیدوں سے سرفراز کرے
مراقلم نہیں اس نقب زن کا دست ہوس
جواپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مراقلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمنداچھالتا ہے
مراقلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جوبندگی کابھی ہر دم حساب رکھتاہے
مراقلم نہیں میزان ایسے عادل کا
جو اپنے چہرے پہ دہرانقاب رکھتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں