پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف مقدمات

فیصل آباد کے ایک یا ایک سے زائدشہریوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق سمیت 150نامعلوم افراد کے خلاف مسجد نبوی میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نازیبا نعرے لگانے کی پاداش میں توہین رسالت کا مقدمہ درج کرا دیا اور شیخ رشید احمد کے بھتیجے کو سعودی عرب سے واپسی پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا ہے۔ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔اس کا جواب سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے الگ الگ پریس کانفرنسز میں دے دیا ہے،دونوں کا کہنا ہے کہ وہ سچے اور پکے عاشقِ رسول ہیں۔ عشق رسول محمد ﷺ کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ماہرین قانون میں سے بیشتر کی رائے ہے کہ واقعہ سعودی عرب میں رونما ہوا ہے اس کی ایف آئی آر پاکستان میں کیسے درج ہو سکتی ہے؟شیخ رشید احمد نے قتل کئے جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ قتل کر دیئے جائیں تو سات آدمیوں کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھا جائے۔ موجودہ حکومت کو اس قسم کے حساس نوعیت کے مقدمات قائم کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیئے تھا کہ ملکی حالات میں جو بھونچال آئے گا اس پر قابو کیسے پایا جائے گا؟توہین رسالت کوئی معمولی جرم نہیں کہ جب چاہا اپنے مخالفین پر چسپاں کر دیا جائے۔جب عوام کسی شخص یا اشخاص کے خلاف توہین رسالت کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آ جائیں گے تو انہیں واپس گھروں میں کون لے جائے گا؟ اور کیسے لے جائے گا؟ماضی میں ایک سے زائد بار اسی قسم کی ہیجانی صورت حال پیدا کرکے ملک بھر میں امن و امان کے مسائل پیدا کئے جاتے رہے ہیں۔انہیں سمیٹنا ہر بار حکومت کے بس سے باہر رہا۔فوج کی مدد لینی پڑی۔ بلکہ احتجاج کرنے والوں کو واپسی کا کرایہ ادا کرنا پڑا۔حکومت کو چاہیئے سیاسی معاملات کا حل سیاسی دائرے میں رہتے ہوئے تلاش کرے۔جس طرح 13جماعتی اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک کا آئینی راستہ اختیار کیا تھا اسی طرح اقتدار میں آنے کے بعد آج کی اپوزیشن کو قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر سیاسی انداز میں جواب دے۔یاد رہے، مذہبی جذبات نازک ہوتے ہیں، ایک بار بھڑک جائیں تو انہیں ٹھنڈا کرنا حد درجہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات کوفراموش نہ کیا جائے۔جانی و مالی نقصان کے علاوہ دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ متأثر ہوتی ہے۔ تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سیالکوٹ کے قریب سری لنکن فیکٹری منیجر کا وحشیانہ قتل ایسی جذباتی فضاء میں ہوا تھا۔فیض آباد دھرنے میں پولیس سمیت متعدد افراد مارے گئے تھے۔دیگر مقامات پر مارے جانے والے ان کے علاوہ ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ماضی کے تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ ملک میں پہلا مارشل لاء لاہور اور اس کے گرد و نواح میں مذہبی جذبات کے بے قابو ہونے کی بناء پر نافذ کیا گیا تھا۔سیاسی اور معاشی سوالوں کا حل مذہبی نعروں سے نہیں دیا جا سکتا،واضح رہے یہ سوچ اورفکر تباہی ا ور بربادی کے سوا ماضی میں کچھ نہیں دے سکی، اگر اسے حال اور مستقبل میں آزمایا گیا تو جلی ہوئی عمارتیں، کاریں، لاشیں اور درد سے کراہتے ہوئے زخمیوں کے خون آلود جسموں کی بڑی تعداد دے گی۔موجودہ حکومت مہنگائی سے نجات دلانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی ہے۔اپنی تمام تر توجہ مہنگائی کے خاتمے پر مرکوز رکھے۔پی ٹی آئی کی حکومت اگر مانگے تانگے کے ووٹوں کی مدد سے پانچ سال پورے نہیں کرسکی تو مسلم لیگ نون مانگے تانگے کے ووٹوں سے ڈیڑھ سال کیسے پورا کرے گی؟2ایم این ایز کی ناراضگی حکومت گرانے کے لئے کافی ہے۔کیونکہ ایم کیو ایم کے ایک ایم این اے وفات پا چکے ہیں۔سابق وزیر داخلہ شیخ رشید پریس کانفرنسز میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ باپ کے باپ کو بھی جانتے ہیں۔اس جملے میں پنہاں زہریلے طنز سے ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے واقف ہیں۔سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ منحرف اراکین کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63Aکے تحت مقدمہ زیر سماعت ہے،جس دن عدالتی فیصلہ سنادیا گیا سیاسی منظر تبدیل ہو سکتا ہے۔علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ایسی ایف آرز ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، مسلم لیگ نون کی نائب صدر کے خلاف درج کرا دی گئی ہیں۔ملتان میں مسلم لیگ نون کے حامیوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کے خلاف احتجاج بھی شروع ہوگیا ہے۔اس کے معنے یہ ہونے چاہیئیں کہ اس بار توہین رسالت کا مقدمہ کسی عام شخص کے خلاف نہیں، بلکہ ملک کی ایک بڑی پارٹی(پی ٹی آئی) کے سربراہ کے خلاف قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے،جس کے حامیوں کی بڑی تعداد نے رمضان کے مہینے میں پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسوں میں شریک ہوکر نئے سیاسی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔پی ڈی ایم ساڑھے تین سال میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بار بار کئے گئے اعلانات پر عمل نہیں کرسکی، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے120سے زائد اراکین نے پارٹی فیصلے پر عمل کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔جبکہ نون لیگ کے دو ایم این ایز نے اپنے استعفے جمع کرانے کے بعدواپس لے لئے تھے۔مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت اس پہلو پر بھی غور کرے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری مسجد نبوی جانے والے اس وفد میں شامل نہیں تھے جس کے خلاف متنازعہ نعرے لگائے گئے تھے۔حکومت کوچاہیے کہ اپنی تصادم اور مخالفین کو کچلنے کی حکمت عملی پر ایک بار پھرنظر ثانی کرے۔ ملکی معیشت بقول لیگی رہنما خواجہ آصف لائف سپورٹنگ مشین پر ہے،وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان کو ”بھکاری“ کہہ رہے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ حالیہ تین روزہ سرکاری دورے میں سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرائے گئے پرانے 3ارب ڈالر واپس لینے کی مدت میں توسیع کے علاوہ کوئی نئی سہولت فراہم نہیں کی۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ دنیا کسی بھکاری ملک کی عزت نہیں کرتی نہ ہی اس ملک کی مالی مدد کرتی ہے جس کی معیشت لائف سیونگ مشین پر ہو۔مسلم لیگ نون کی حکومت اپنی ترجیحات مرتب کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے۔یہ بھی یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم مئی کے وسط میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لے گی، اور کارکردگی کی روشنی میں بجٹ تجاویز دے گی۔پہلا ہفتہ عید کی تعطیلات کی نذر ہو جائے گا۔اس کے بعد امن و امان کی صورت حال کا بہتر ہونا بھی اہم مسئلہ ہو جائے گا۔تصادم سے بچنے کی کوشش کی جائے۔دانشمندی سے کام لیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں