آرمی چیف کی تقرری میں حکومت کا اختیار ختم و سینارٹی کی بنیاد پر تقرری کیلئے قانون سازی کی جائے، امان اللہ کنرانی

کوئٹہ:سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر(ر) امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری میں حکومت کا صوابدیدی اختیار ختم و اعلی عدلیہ کی طرز پر سینارٹی کی بنیاد پر تقرری کے لئے قانون سازی کی جائے اسی طرح عدلیہ کے اندر نئے ججوں کی تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن میں عدلیہ کے فیصلہ کن صوابدیدی اختیارات کو بھی کم کیا جائے جس کے اندر آئین کے روح کے مطابق وکلاء کے اداروں کی آراء کو وزن دیا جائے جس کے لئے ابتداء ً ہی سے گذشتہ بارہ سالوں میں کوء قانون سازی نہیں کی گئی اصولوں کی خاطر مفادات کو ٹھکرانے کی بات کے تسلسل میں تاریخ گواہ ہے۔ یہ بات انہوں نے ایک بیان میں کہی، انہوں نے کہا کہ 1994 کے وسط میں جب چیف جسٹس پاکستان کے تقرری کا مرحلہ آیا سپریم کورٹ میں تین سینئر ججوں میں سے نامزدگی کا پینل اس وقت کے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے سامنے رکھا گیا جس میں بالترتیب جسٹس اجمل میاں و جسٹس عبدالقدیر چوہدری اور جسٹس سید سجاد علی شاہ کے نام شامل تھے اس وقت تک چیف جسٹس کی تقرری سینا رٹی کی بنیاد پر تقرری کے لئے آئین میں ترمیم نہیں ہوا تھا سپریم و ہائی کورٹ کے ججوں میں سے متعلقہ عدالت میں کسی جج جس کا بطور جج پانچ سالہ تجربہ ہو اس کو چیف جسٹس مقرر کیا جاسکتا تھا بی بی بے نظیر،اجمل میاں کو چیف جسٹس بنانا پسند نہیں کرتی تھیں اس لئے اس نے دوسرے نمبر پر جج جسٹس چوہدری عبدالقدیر کو پیشکش کی کہ ہم آپ کو چیف جسٹس پاکستان بنانا چاہتے ہیں مگر انھوں نے تاریخی جواب دیا کہ“محترمہ میں آپ کا مشکور و ممنون ہوں آپ نے مجھے میری صلاحیت و قابلیت کی پزیرائی و چھوٹے صوبے بلوچستان سے تعلق کی بنیاد پر ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس بنانے کا ارادہ ظاہر کیا مگر میں اپنے سینئیر کو Supersede نہیں کرسکتا”تب ان کے عظیم روئیے و معذرت کے بعد تیسرے نمبر پر جج جسٹس سید سجاد علی شاہ کو 4.6.1994 کو چیف جسٹس پاکستان بنایا گیا مگر آخر میں اتفاق سے وہی ان کی حکومت کے لئے صدر فاروق لغاری کے ساتھ مل کر گلے میں ہڈی ثابت ہوئے آرمی میں COAS بننے کے لئے اسی طرح ابھی تک سینارٹی کی بنیاد پر تقرری کا کوئی قانون موجود نہیں ہے یہ اب تک حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے حالانکہ آرمی کے اپنے اندر GHQ کے زرئیعئے سپاہی سے لیفٹیننٹ جنرل 3 Star تک تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں اس کے برعکس ریاست کے تینوں ستون مقننہ و عدلیہ و انتظامیہ سوائے آرمی جس میں کوء Favourite نہیں ہوتا رنگ نسل زبان علاقہ رشتہ مذہب و فقہ ترقی کے آڑے نہیں آتا اس لئے آرمی چیف ہمیشہ مختلف زبان و علاقہ سے ہوتا ہے جبکہ ریاست کے دوسرے ستون اپنی تقرریوں میں میرٹ کی دھجیاں اْڑاتے ہیں اور آرمی کو سیاسی بنانے میں سیاستدانوں کا اپنا ہی قصور رہا ہے جنھوں نے صوابدیدی اختیار استعمال کرکے جونیئر جنرلز کو ترقی کے منازل طے کرائے بعد میں وہی ان کے لئے گلے کا پھندا بن گئے، انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء و جنرل پرویز مشرف کی مثالیں سامنے ہیں جن کو Out of turn Promotion دی گئی ان دونوں نے اپنے محسنوں بھٹو کو پھانسی اور نواز شریف کو جلاوطن کیا اب وقت آگیاہے یا حکومت وزیردفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان کے تناظر میں قانون سازی کرے کہ آئندہ عدلیہ کی طرح آرمی چیف کی تقرری بھی صوابدید نہیں سینارٹی پر ہوگی یا پھر کوئی باضمیر جنرل جسٹس چوہدری عبدالقدیر کی طرح جرات کرکے اپنے سنئیر کو Supersede کرنے سے معذرت کردے اگرچہ ہمارے ملک میں طاقت کا سر چشمہ کہنے کو عوام ہے مگر عملا”جج و جنرل کا ملاپ قوم کے لئے”باپ”جنم دیتا ہے اب وقت آگیا ہے اس مصنوعی افزائش نسل کے تسلسل کوروک کر اس نرسری کو بندکیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں