منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالے سے بھجوائے گئے ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عطا عمر بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے 2کے مقابلے میں 3کی اکثریت سے گزشتہ روز سنادیا ہے۔فیصلے کے مطابق منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کی رو سے وفاقی حکومت اگرچہ وقتی طور پر بچ گئی ہے لیکن اس کی اخلاقی پوزیشن پر سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔البتہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت اپنا قانونی جواز کھو بیٹھی ہے۔ارسال کردہ صدارتی ریفرنس میں دوسراسوال پوچھا گیاتھا کہ نااہل ہونے کی صورت میں یہ نااہلی تاحیات ہوگی؟دوسرے سوال کا سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے جواب دینے کی بجائے پارلیمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ اس بارے قانون سازی کی جائے۔ عدالتی ہدایت آجانے کے بعد اب پارلیمنٹ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی پابند ہو گئی ہے،اس سوال کو ماضی کی طرح ہوا میں معلق نہیں رکھا جا سکے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے کی کوشش کے دوران موجودہ پارلیمنٹ جن مراحل سے گزری تھی، منحرف اراکین کوجس طرح سندھ ہاؤس میں مہمان بنا کر رکھا گیا تھا اسے دیکھتے ہوئے عام آدمی کی نگاہوں میں ہر قسم کی قانون سازی کا استحقاق کھو بیٹھی ہے۔منحرف رکن اسمبلی کی نااہلی کی مدت کے حوالے سے قانون سازی اہم نوعیت کا معاملہ ہے، اتنی اہم قانون سازی ایک غیر متنازعہ پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے موجودہ حکومت کے گھر جانے کی باوقار راہ ہموار کر دی ہے۔اب دیکھنا ہے مسلم لیگ نون اور اس کی درجن بھر اتحادی جماعتیں اس عدالتی فیصلے کوکس زاویئے سے دیکھتی ہیں؟ اور اس پر عملدرآمد کیسے کریں گی؟فیصلہ آچکا ہے، اس پر عملدرآمد سے گریز موجودہ حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ کا موجب ہوگا۔اس حقیقت سے تمام سیاستدان کماحقہ‘ واقف ہیں کہ پنجاب کی حکومت جانے کے بعد وفاقی حکومت چلانا کس قدر دشوار کام ہے۔مسلم لیگ نون کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے پی پی پی کی وفاقی حکومت کو پنجاب کی زمین پر کوئی ترقیاتی کام نہیں کرنے دیاتھا۔ وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو (شہید)پنجاب میں کسی اسکول کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کرتیں تو ان کے جاتے ہی سنگ بنیاد اکھاڑ دیا جاتا اور مزدور گرفتار کر لئے جاتے تھے۔وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے بڑے بھائی (وزیر اعلیٰ پنجاب)کے دور کے مناظر اچھی طرح یاد ہوں گے۔کیا وہ پسند کریں گے تاریخ خود کو دہرائے؟دانشمندی کا تقاضہ ہے عدالتی فیصلے کا احترام کیا جائے،علاوہ ازیں تسلیم کیا جائے کہ منحرف ارکانِ اسمبلی کے ووٹوں کی بیساکھی اب سہارا دینے کے قابل نہیں رہی۔پارٹی پالیسی سے انحراف کا راستہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔وفاقی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اپنا بوجھ اٹھانے سے بھی معذور ہے۔سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹ(باپ) کے اراکین کی حیثیت بھی مشتبہ ہو گئی ہے، انہیں منحرف قرار دلوانے کے لئے پارٹی قائد کی درخواست کافی ہوگی۔ پہلی پیشی پر ہی نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتیں اپنے قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد مناسب لائحہئ عمل طے کریں گی۔غالب امکان ہے ان کی قیادت نئے انتخابات کا راستہ پسند کریں گی۔ویسے بھی میڈیا اطلاعات کے مطابق بارہ تیرہ رکنی ڈھیلے ڈھالے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی اکثریت نئے انتخابات کی حامی ہے۔ اینؤم کیو ایم پہلے ہی نئے انتخابات کا مشورہ دے چکی ہے۔جے یو آئی بھی روز اول سے ہی اسی رائے کی حمایت کرتی رہی ہے، بلکہ سب سے پہلے اسی جماعت نے مطالبہ کیا تھا۔ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا حشر دیکھنے کے بعد پی پی پی کی اعلیٰ قیادت بھی اپنی رائے پر نظر ثانی پر راضی ہو جائے گی۔در اصل عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے پاکستانی سیاسی سوچ کا قبلہ درست کر دیا ہے۔منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہ ہونے کے بعد اراکین کی خریدوفروخت کا باب بند ہو گیا ہے۔دو چار اراکین اسمبلی کو ضمیر جاگنے کے نام پر اپنی وفاداری تبدیل کرنے کی چھانگا مانگا ٹائپ سیاست کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے ممنوع قرار دے دیا ہے۔موجودہ ”لوٹا مخالف“ماحول میں عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ کوئی پارٹی اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کی ہمت نہیں کرے گی۔اور اگر موجودہ سیاسی ماحول سے آنکھیں بند کر کے کوئی پارٹی چلی گئی تو اسے اپنی پسند کا فیصلہ نہیں مل سکے گا۔اپیل دائر کرنے سے پہلے مناسب سوچ بچار کی جاتی ہے، ان کی سوچ بچار کا آغاز ہونے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی سامنے آجائے گا۔یہ کہنا یا سوچنا درست نہیں ہوگا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ آجانے کے بعد منحرف ارجکان اسمبلی کو ووٹ کا حق دینے کا اعلان کرے گا۔جبکہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعداد بھی کم ہے۔مبصرین کی جانب سے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔عدالتی فیصلے نے ملک کو ایک بڑے اور ہولناک تصادم سے بچا لیا ہے۔ اب جو کچھ ہوگا آئین اور قانون کے مطابق ہوگا۔پنجاب میں دکھائی دینے والا لاقانونیت کا طوفان تھم جائے گا۔توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خان کواسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔موجودہ حکومت 20مئی سے پہلے ہی نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لئے اہم اقدامات اٹھا چکی ہوگی۔دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ جان بوجھ کر آگ کی طرف بڑھنے کی ضد نہ کی جائے۔واضح رہے موجودہ داخلی اور عالمی تناظر کوئی بھی بیجاضد سب کچھ ملیامیٹ کر دے گی۔معیشت تیزی سے زوال
پذیر ہے۔ مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتیں اقتدار سنبھالنے کے بعدمعاشی تباہی کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ڈالر کی قیمت 200 روپے ہونے کو ہے۔مشکل فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے۔ آئی ایم ایف نئی حکومت کو کوئی مراعات دینے کے موڈ میں نہیں۔حکومت کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ دوست ممالک آئی ایم ایف سے معاہدہ کئے بغیر مالی تعاون نہیں کریں گے۔حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ پہلے ہی شروع کر دیا ہے۔مگر آئی ایم ایف کی پہلی شرط پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ ہے۔مشتعل عوام کا خوف اس بڑے فیصلے کا اعلان کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگ نون عدالتی فیصلے سے استفادہ کرے، صد رمملکت کواسمبلیاں تحلیل کرنے کا مشورہ دے اور پرسکون ہو جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں