سری لنکا کے نئے صدر کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹنگ سے قبل ایمرجنسی نافذ

کولمبو(مانیٹرنگ ڈیسک)سری لنکا کے قائم مقام صدر رانیل وکرماسنگھے نے رات گئے سیاسی و معاشی بحران سے متاثرہ جزیرہ نما ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا مقصد اس ہفتے کے آخر میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل بدامنی کو روکنا اور امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنا ہے۔سری لنکا کے مشکل صورتحال سے دوچار رہنماﺅں نے اپریل کے بعد سے اب تک کئی مرتبہ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے شدید معاشی بحران اور اشیائے ضروریہ کی مسلسل قلت سے نمٹنے میں ناکامی کے خلاف عوامی مظاہروں نے شدت اختیار کرلی تھی۔ہنگامی حالت کے نفاذ سے متعلق جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ عوام کی سلامتی، امن عامہ کے تحفظ اور کمیونٹی کی زندگی کے لیے ضروری سامان اور خدمات کی فراہمی کے مفادات میں ایسا کرنا مناسب ہے۔وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے نے گزشتہ ہفتے ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا جب صدر گوٹابایا راجاپکسے اپنی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہوگئے تھے، لیکن اس اعلان کا باضابطہ طور پر نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا۔اتوار کے روز رات گئے رانیل وکرماسنگھے جنہوں نے 15جولائی کو قائم مقام صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھا، نے ایک بار پھر ہنگامی حالت کا اعلان کیا جبکہ اس اعلان کی مخصوص قانونی دفعات کا حکومت کی جانب سے اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ پچھلی مرتبہ ہنگامی حالت کا نفاذ لوگوں کو گرفتار کرنے، حراست میں لینے، نجی املاک کی تلاشی اور عوامی احتجاج کو قابو میں رکھنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے لیے کیا گیا تھا۔ پیر کی صبح ملک کے تجارتی دارالحکومت کولمبو کی صوررتحال پرامن رہی جبکہ گاڑیاں اور پیدل چلنے والے شہری سڑکوں پر دیکھے گئے۔ سینٹر فار پالیسی آلٹرنیٹوز کے سینئر محقق بھوانی فونسیکا نے حکومت کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالت کا اعلان کرنا حکومت کا طے شدہ ردعمل بن چکا ہے۔ بھوانی فونسیکا نے کہا کہ یہ اقدام ماضی میں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ گوٹابایا راجاپکسے گزشتہ ہفتے اس وقت مالدیپ اور پھر سنگاپور فرار ہوگئے تھے جب ایک ہفتہ قبل لاکھوں حکومت مخالف مظاہرین کولمبو کی سڑکوں پر نکل آئے اور ان کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر پر قبضہ کرلیا تھا۔ پارلیمنٹ نے جمعہ کو گوٹابایا راجاپکسے کا استعفی منظور کر لیا تھا اور بدھ کے روز ووٹنگ کے ساتھ نئے صدر کے انتخاب کا عمل شروع کرنے کے لیے اجلاس طلب کرلیا تھا۔ بحران زدہ قوم کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایندھن کی ایک کھیپ بھی موصول ہوئی ہے۔ رانیل وکرماسنگھے جو 6 بار ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں، جنہیں گوٹابایا راجاپکسے کا حلیف سمجھا جاتا ہے، مستقل صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے سرفہرست امیدواروں میں سے ایک ہیں لیکن مظاہرین ان کی رخصتی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، اس لیے ان کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں ملک میں مزید بدامنی کا خدشہ ہے۔ مرکزی اپوزیشن جماعت سماگی جنا بالاویگایا پارٹی کے رہنما سجیت پریماداسا بھی صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل سرکردہ رہنما ہیں جبکہ ان کے ساتھ حکمراں جماعت کے ایک سینئر قانون ساز دلاس الہاپیروما جو ماس میڈیا کے وزیر اور کابینہ کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں وہ بھی صدارتی عہدے کے امیدوار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں