طالبان قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتے: مائیکل والٹز

کابل :امریکی ایوانِ نمائندگان کے رکن مائیکل والٹز نے کہا ہیکہ وہ طالبان کے کہے پر یقین نہیں کرتے، کیونکہ، بقول ان کے، ”طالبان نے اپنے عملی اقدامات سے القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کی کبھی مذمت نہیں کی”۔انہوں نے کہا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب حملے تواتر سے ہو رہے ہیں، ”ایسے میں امریکہ اور افغان حکومت امن عمل کو کیسے جاری رکھ سکتے ہیں”۔ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والیکانگریس مین والٹز نے بدھ کے روز، افغانستان میں ایک زچہ بچہ وارڈ پر دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”شیطانی اور بزدلانہ عمل” قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خواتین اور بچوں پر حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امن کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار تو کیا ہے، لیکن وہ طالبان کا بھروسہ نہیں کرتے۔اس سوال کے جواب میں کہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے اپنی افواج کو طالبان پر حملے کرنے کی ہدایات جاری کرنے سے بین الافغان بات چیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کانگریس مین والٹز کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس طرح کے تشدد میں جب ان کی افواج اور پولیس پر مسلسل حملے ہو رہے ہوں، بین الافغان بات چیت کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ اور حکومت ایسے حالات میں کیسے بات چیت کا آغاز کر سکتی ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ بات پوری طرح سے عیاں ہے کہ طالبان قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ وہ امن معاہدے کی آڑ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مخفی انداز میں حکومت کے خلاف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔بقول ان کے، ”طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی تشدد میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی؛ نہی امن کی جانب ان کے قدم اٹھتے دیکھے ہیں۔ اس لئے، افغان حکومت کے پاس اپنے دفاع کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے”۔اُن سے سوال پر کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ان حملوں کے بعد، طالبان اور افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، تو کیا طالبان تعاون کریں گے؟ جواب میں کانگریس مین نے کہا کہ سبھی امن کے خواہاں ہیں اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن، بہت برسوں سے اس قسم کے تشدد کی ہدایات طالبان تنظیم کے بہت اوپری سطح سے جاری کی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے انہیں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق حملہ آوروں کو انجام تک پہنچانے میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔اس بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، انھوں نے کہا افغان حکومت اور طالبان کو امریکہ ایک ہی پلڑے میں تول رہا ہے، جبکہ وہ برابر نہیں ہیں۔ دونوں میں کوئی تو برابری ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ایک منتخب حکومت ہے۔ اور وہ ایک آئین کی تابع ہے، اور اپنی عوام کیلئے کام کرتی ہے۔ اس کے بہت سے مسائل تو ہیں، لیکن یہ جمہوریت کا حصہ ہیں۔ اور ایک جمہوریہ ہے۔ اس کے مقابلے میں طالبان ایک باقاعدہ دہشت گرد تنظیم ہے جو کہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ طالبان ان مذاکرات کو استعمال کرکے، امریکہ کے جانے کے بعد نئے سرے سے اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں؛ اور یہ امریکہ، افغان حکومت اور عوام کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔یہ پوچھنے پر کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا تھا کہ اگر طالباان نے اپنے وعدے سے روگردانی کی تو امریکہ اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ تو وہ کیا صورتحال ہوگی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ معاہدے سے پیچھے ہٹے؟کانگریس مین والٹز نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے تو بات نہیں کرنا چاہتے، لیکن بطور ایک رکنِ کانگریس جو افغانستان میں بطور فوجی اپنے بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے ہیں، وہ یہ کہنا چاہیں گے کہ افغان فوج پر طالبان کا حملہ بلکل ویسا ہی ہے جیسا کہ امریکی یا اس کے شراکت داروں کی فوج پر حملہ؛ کیونکہ شدت پسندی کیخلاف جنگ میں سب اکٹھے ہیں۔


