ہاتھی کے بھاری پاؤں

انور ساجدی
قیصر بنگالی نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان442ملین ڈالر کے بھاشاڈیم کاجو معاہدہ ہوا ہے اسکی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ چین کن شرائط پر اس ڈیم کو فنانس کررہا ہے انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا چین کو بھاشاڈیم کا حق مالکانہ دیاگیا ہے۔
ڈیم کی تعمیر چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کرے گی جبکہ ایف ڈبلیو او شراکت دار ہوگی۔امکان ہے کہ پاکستانی ادارہ لاجسٹک سپورٹ دے گا جبکہ دیگر جملہ اخراجات چین پورا کرے گا گلگت بلتستان میں یہ پہلا میگاپروجیکٹ ہوگا جو چین کے تعاون سے مکمل کیاجائیگا بھارت نے ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازع علاقہ ہے اور یہ کشمیر کا حصہ ہے لیکن چین نے یہ اعتراض مسترد کردیا ہے اس سے قبل چین نے شاہراہ ریشم تعمیر کرکے دیا تھا یہ دراصل صدیوں پرانے سلک روٹ کی جدید شکل ہے قردن وسطیٰ میں اونٹوں اور خچروں پرمشتمل چینی قافلہ دنیا کے نہایت دشوار گزارراستے سے سفر کرکے تجارت کیا کرتے تھے چین نے اپنے قدیم سلک روڈ کو بیلٹ اینڈ روڈ کا نام دے کر توسیع دی ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ اسے ساری دنیا تک توسیع دے کر دم لے گا۔
پاکستان کی حد تک سلک روٹ سی پیک کا حصہ ہے جو سنکیانگ سے شروع ہو کر گوادر پراختتام پذیر ہوگا امریکہ چینی توسیع پسندانہ عزائم سے خاصا پریشان ہے وہ ایک طرف ساؤتھ چائنا سی پر چین کے دعوے کو نہیں مانتا دوسری طرف وہ بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کو بھی اپنے لئے تجارتی معاشی سیاسی اور تذدیراتی چیلنج سمجھ رہا ہے چین کا رقبہ اگرچہ الاسکا کونکال کر امریکہ کے مین لینڈ کے برابر ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے سمندرساؤتھ چائنا چین پر اگر اسکی بالادستی قائم ہوگئی تو اسکا آبی رقبہ اتنا بڑھ جائیگا کہ دنیا کا کوئی ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ابتک امریکہ دنیا کا نمبر ایک سپرپاور ہے جبکہ اسکی مدمقابل طاقت صرف چین ہے باقی ممالک اس دوڑ میں شامل نہیں ہیں جبکہ سوویت یونین دوسری بڑی سپرپاور تھا تو دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصہ تک سردجنگ رہی کیونکہ اس وقت دنیادوبلاکوں میں تقسیم تھی اور اس تقسیم کا سبب دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر سوویت یونین کی ابھرتی ہوئی طاقت تھی1945ء میں امریکہ کی مشرق بعید کی ریاست ہوائی میں واقع پرل ہاربر کوجاپان نے تباہ کردیا تھا تو امریکہ نے پہلی مرتبہ جاپان پرایٹم بم کا استعمال کیاتھا یہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ امریکہ دنیا کا نمبر ایک سپرپاور بن چکاہے اور اس نے دوسری جنگ عظیم کے فاتح برطانیہ عظمیٰ کی جگہ لے لی ہے جو اس جنگ کے نتیجہ میں سکڑ کر بحرالکاہل کے حقیر سمندر انگلش چینل تک محدود ہوگیا تھا امریکہ کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد سوویت یونین نے کوشش تیز کردیں اور وہ بھی محض 5سال کے بعد دوسری ایٹمی طاقت بن گیا۔
1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد دنیا میں یک قطبی سپرپاور قائم ہوگیا تھا یہ وہ دور تھا جب ڈینگ زیاؤپنگ نے چین کو غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے کھول دیا تھا انہوں نے سب سے پہلے ہانگ کانگ کے باالمقابل شین جن کے عظیم شہر کی بنیاد ڈالی تھی جو آج چین کا سائبرسٹی ہے حیرت کی بات ہے کہ محض 30سال کے عرصہ میں چین نے تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی کے منازل طے کئے اور اسکی معیشت دوسری بڑی معیشت بن گئی لیکن پیداواری اعتبار سے وہ امریکہ سے بھی بڑی معیشت ہے لیکن کرونا کی حالیہ وبا کی وجہ سے امریکہ نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے امریکہ کو فی الحال چین پریہ فضیلت حاصل ہے کہ ترقی یافتہ یورپ اس کا اتحادی اور غلام ہے اگرامریکہ اور یورپ مل کر چین کا بائیکاٹ کردیں تو اسکی تجارت سکڑ سکتی ہے۔یہ تو سب ہی مانتے ہیں کہ امریکہ میں چین سے زیادہ سازش کرنے کی صلاحیت ہے لیکن یہ صلاحیت اس وقت کام آئیگی جب امریکی ٹیکنالوجی بھی برترہو لیکن چین نے5جی بناکر اپنی پہلی بالادستی ثابت کردی ہے مغرب اور چین میں ایک بنیادی فرق ہے کہ امریکہ سمیت تمام مغرب میں جمہوری نظام نافذ ہے اور وہاں کی حکومتیں پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں جبکہ مقابلے میں چین میں بدترین آمرانہ اورشخصی حکومت قائم ہے اسکی اندرونی معیشت سوشلسٹ جبکہ بیرونی معیشت سرمایہ دارانہ ہے چین کے صدر کوناقابل یقین اختیارات حاصل ہیں جبکہ امریکی صدر کانگریس کے سامنے جوابدہ ہیں اگرچین پرکرونا پھیلانے کاالزام ثابت ہواتو اسکی اخلاقی طاقت کم ہوجائے گی اور اسے ایک بڑے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا اگرایسا ہوا تو اسے مغرب کی بجائے مشرقی منڈیوں پر انحصار کرنا پڑے گا اس حوالے سے سی پیک اہم ترین منصوبہ ہے جس کے راستہ میں معمولی مزاحمت حائل ہے اگرچین نے پاکستان پر زیادہ انحصار کیا تو پاکستان بدترین گھاٹے کا شکار ہوجائے گا کیونکہ بھاشاڈیم کی خفیہ شرائط سے لگتاہے کہ چین صرف ان منصوبوں پرسرمایہ کاری کرے گا جس کے حق مالکانہ اسے حاصل ہوں اگرخنجراب پاس سے گوادر تک سی پیک اپنی ہئیت میں ایک منافع بخش روٹ بن گیا اس کے اردگرد لاکھوں صنعتیں قائم ہوگئیں فری زون قائم ہوگئے تو چین مزید حق مالکانہ حاصل کرے گا یعنی وہ منصوبے خود بنائے گا چلائے گا اس کا منافع بٹور کرلے جائیگا اور پاکستان کو برائے نام سروس چارج ادا کرے گا۔
اگرچہ قیصر بنگالی نے بھاشاڈیم کا مسئلہ اٹھایا ہے میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ گوادر پورٹ کا معاہدہ بھی مشکوک ہے اگرمشکوک نہ ہوتا تو اسکی تفصیلات کا اعلان کیاجاتا صرف اتنا پتہ چلا ہے کہ پورٹ کے منافع میں سے چین9فیصد پاکستان کوادا کرے گا جب سی پیک کے معاہدے پر اسلام آباد میں دستخط کی تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا بلکہ ضلع کونسل گوادر کے چیئرمین سے دستخط حاصل کئے گئے تھے اندر فائلوں میں کیا لکھا تھا یہ بلوچستان کے کسی آدمی کو معلوم نہیں ڈاکٹرمالک ظاہری طور پر جام صاحب سے سیاسی اعتبار زیادہ طاقتور تھے اگران سے نہیں پوچھا گیا تو مستقبل میں جام صاحب سے کیاپوچھ کر کیاجائے گا اگرحکومت نے گوادر کے حق مالکانہ چین کو نہیں دیئے ہیں تو وہ اس معاہدہ کی تفصیلات عوام کے سامنے لائے۔اگرتفصیلات کوسامنے نہیں لایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اگرچہ سی پیک ایک طویل منصوبے ہے جس کی تیاری ہنوز مکمل نہیں ہے اور گوادر پورٹ کوسلک روڈ تک ملانے کیلئے بلوچستان سے کوئی براہ راست سڑک نہیں بنائی گئی کوئٹہ سے پنجگور،کیچ اور گوادر تک کوئی موٹروے نہیں ہے جو بھاری ٹریفک کابوجھ اٹھاسکے ایک عام سڑک ضرور بنائی گئی ہے لہٰذا سی پیک کا ٹریفک سندھ اور کراچی کے بعد کوسٹل ہائی وے سے گوادر جائیگا یہ ایک طویل صبر آزما اور مہنگا سفر ہوگا اور جس کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا یعنی جب تک لنک شاہراہیں بنیں گوادر پورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہو وہاں پر بجلی،گیس،پانی اور دیگر بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں اس میں بہت وقت لگے گا۔
جو بھی ہو چین گوادر لے جائیگا اور اردگرد کے علاقے بھی مانگ لے گا یا اس نے مانگ لئے ہونگے کیونکہ سنکیانگ سے گوادر تک مال لانا اتنا آسان نہیں ہے چین مال مقامی طور پر تیار کرے گا اور مشرقی منڈیوں میں پہنچائیگا جو زیادہ منافع بخش طریقہ کار ہے اگر مغرب نے چین کا معاشی گھیراؤ کیا تو سی پیک زیادہ اہمیت اختیار کرجائیگا چین بحر ہند اوربحیرہ بلوچ میں پہلے سے قدم رکھ چکا ہے اور اسکے بحری بیڑے خلیج اومان اور خلیج عدن کے درمیان گشت پر ہیں اگر کل گوادر بڑا شہر بن گیا اور یہاں پر ہزارون چینی باشندے مقیم ہوئے تو انکی سیکیورٹی بھی وہ خودسنبھالے گا جبکہ سمندر میں بھی وہ زبردست حفاظتی حصار قائم کرے گا اگریہ تمام مفروضات سچ ثابت ہوئے تو ایک طرف پاکستان چین کیلئے اتنا اہم ہوجائے گا جتنا امریکہ کیلئے اسرائیل ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اسرائیل کشکول لے کر نہیں پھرتا اور وہ خود بھی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہے لیکن پاکستان چین جیسے دیوہیکل بلاکا بوجھ برداشت نہیں کرپائیگا بالآخر وہ نقصان میں رہے گا اور اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان چینی قرضوں کابھاری سود ادا نہیں کرسکے گا اور گوادر پورٹ ایک اور”ہمبن ٹوٹا“ بن جائیگا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں