” لاوارث شادی کور پسنی “

تحریر : ساجدنور

شادی کور ضلع کیچ اور تحصیل پسنی کے درمیان ایک خوبصورت علاقہ ہے شادی کور ندی کا شمار بلوچستان کی بڑی ندیوں میں ہوتا ہے شادی کور 10فروری 2005 میں اُس وقت قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی جب اس ندی پر بنائی گئی ڈیم ٹوٹ گئی جس کے سیلابی ریلے نے متعدد دیہات ملیا میٹ کردیے اور سرکاری عدادوشمار کے مطابق شادی کور ڈیم پھٹنے کی وجہ سے 70کے قریب دیہاتی جان بحق ہوگئے اور انکی نعشیں سیلابی ریلہ گھسیٹ کر بحرہ عرب میں لے گئی جبکہ فوج کی طرف سے ہنگامی تلاش اور امدادی کارروائیوں نے تقریباً 1,200 لوگوں کی جانیں بچائیں۔

”شادیکور” ڈیم 485 میٹر (1,591 فٹ) لمبا تھا۔اور 2003 میں 45 ملین پاکستانی روپے ($758,853) کی لاگت سے اسے تعمیر کیا گیا تھا تاکہ قریبی کھیتوں کو آبپاشی فراہم کی جا سکے۔جنرل پرویز مشرف نے ہنگامی بنیادوں پر اس علاقے کا دورہ کیا اور ایک نئے ڈیم بنانے کی منظوری دے دی جبکہ سال 2016 میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے نئی تعمیر شدہ شادی کور ڈیم کا افتتاح کردیا۔شادی کور چونکہ پورے علاقہ کا نام ہے اور اس علاقے میں بہت سے چھوٹے گا¶ں آباد ہیں تراتی،گورستانی اور زہریں کہور شادی کور کے انتہائی بڑے زرعی آبادی والے گا¶ں ہیں یہاں سے تربت،پسنی،گوادر اور کراچی کی منڈیوں تک سبزی سپلائی کی جاتی ہے۔

شادی کور شروع سے ہی ایک زرعی علاقہ تھا لیکن شادی کور ڈیم بننے کے بعد محکمہ آبپاشی نے شادی کور کے تمام باغات میں چینل کے زریعے پانی سپلائی کرنے کا بندوبست کیا جس کے بعد شادی کور کے تمام علاقوں میں سبزیوں کی فروانی ہوگئی اور ضلع کیچ،گوادر اور پسنی شہر کے تیس سے چالیس فیصد سبزی کا کوٹہ شادی کور سے جاتا ہے۔انسرجنسی کی وجہ سے شادی کور کے زیادہ تر لوگ پسنی میں جاکر آباد ہوگئے جبکہ چار پانچ کے قریب چھوٹے گا¶ں بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر پسنی کے قریبی علاقوں میں آکر آباد ہوگئے ہیں۔لیکن تراتی،گورستانی اور زہریں کہور کے مکین ابھی بھی اپنے علاقوں میں رہائش پزیر ہیں۔جغرافیائی اور زمینی حوالے سے شادی کور ضلع گوادر اور تحصیل پسنی کا حصہ ہے لیکن سرکاری کاغذوں میں اُس کو ضلع کیچ کا حصہ بنادیا گیا ہے،بتایا جاتا ہے کہ 1985 کے غیرجماعتی الیکشن کے وقت شادی کور تحصیل پسنی کے حلقے میں شامل تھا۔ اس لاوارث علاقے کو کبھی پیدراک سے ملا کر تربت سٹی کا حصہ بنادیا جاتا ہے تو کبھی بلیدہ اور دشت کے حلقے میں شامل کردیا جاتاہے۔

2018 کے الیکشن سے قبل شادی کور اور اُس کے محلقہ علاقوں کو سیاسی بنیادوں پر حلقہ بندی کے زریعے بلیدہ کیچ کا حصہ بنا دیا گیا اگر گوگل میپ پر کوئی بلیدہ کیچ اور شادی کور کا نقشہ دیکھے تو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اِن دونوں علاقوں کے درمیان فاصلہ کتنا ہے تربت سٹی کو چھوڑیے جوسک کیچ بانسبت شادی کور کے بلیدہ سے زیادہ قریب ہے لیکن حلقہ بندی میں وہ تربت کیچ کا حصہ ہے۔ابھی جو تازہ حلقہ بندی ہوئی ہے اِس میں شادی کور کو بلیدہ سے علیحدہ کرکے دشت کیچ کا حصہ بنا دیا گیا ہے یعنی طاقتور سرکار کو جہاں سے بھی اپنا کوئی منظور نظر امیدوار جتوانا ہو وہ شادی کور کو اُسی حلقے کا حصہ بنادیگا اور اپنے مقاصد یعنی ووٹ بنک کےلیے استعمال کریگا شادی کور اور اُس کے علاقوں کی محرومی کا اصل وجہ بھی یہی ہے۔2018 کے الیکشن میں شادی کور کے لوگوں نے باپ جماعت کے امیدوار کو ووٹ کیا اور اُس امیدوار نے یہاں صرف دو کلاس روم بناکر دیے ہیں۔

زہریں کہور کے پرائمری اسکول کو 2010 میں مڈل کا درجہ دیاگیا لیکن اُسکی حالت زار ناگفتہ ہے وہاں اساتذہ سالوں سال غیرحاضر رہتے ہیں چونکہ اسکول محکمہ ایجوکیشن کیچ تربت کے انڈر ہے اساتذہ بھی ضلع کیچ سے تعینات کیے جاتے ہیں اور یہ علاقہ اُن کے لیے کافی دُور پڑتا ہے۔تراتی کا پرائمری اسکول گزشتہ کہیں سالوں سے بند پڑا ہے اسی طرح گورستانی کا پرائمری اسکول ہے اُسکی حالت زار بھی یہی ہے۔

حکومت بلوچستان اور محکمہ صحت نے زرین کہور میں ایک بی ایچ یو بناکردی ہے لیکن اُس پر ایف سی فورس نے اپنا چیک پوسٹ بنالی ہے اور شادی کور کے لوگ معمولی بیماری کی وجہ سے پسنی شہر کا رُخ کرتے ہیں۔دوسری جانب پکی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔بارش کے سیزن میں شادی کور ندی میں سیلابی ریلہ آجانے کی وجہ سے راستہ دس دس دن تک بند ہوجاتی ہے۔گورستانی،تراتی اور زہریں کہور کے لوگوں کا پسنی شہر سے رابطہ ناممکن ہوجاتاہے اور متبادل راستہ جو سردشت کی طرف جاتا ہے اُس کو استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی انتہائی دشوار گزار راستہ ہے۔شادی کور کی آبادی تقریبا دو ہزار کے قریب ہے اور یہ دوہزار ووٹ ہر الیکشن میں سرکار کی منظور نظر امیدوار کو ملتے ہیں جس وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے لیکن شادی کور کے لوگ کبھی بھی اُس سرکار کی منظور نظر نہیں رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں