پورا ہفتہ کاروبار کی اجازت

اداریہ
ا صولولاً یہ فیصلہ سیاست دانوں کوخود ہی کر لینا چاہیئے تھا18ویں ترمیم میں صوبائی حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ لوگوں سے کاروبار کرنے کا آئینی حق چھین لیں۔کورونا وائرس کسی ایک یا دو صوبوں کا مسئلہ نہیں کہ اسے صوبائی معاملہ کہہ کر اپنی مرضی مسلط کی جائے۔یہ عالمی مسئلہ ہے۔چین سے آغاز ہوااور وہاں سے نکل کر اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پاکستان میں کورونا وائرس ایران سے آنے والے زائرین اور دنیابھر سے آنے والے تبلیغی جماعت کے افراد تھے۔اگر انہیں ملک میں داخل ہوتے وقت مکمل طور پر جانچ پڑتال سے گزارا جاتااور متأثرین ِ کورونا کو ملک بھر میں جانے کی آزادی نہ دی جاتی تو پاکستان کو بہ آسانی کورونا سے بچایا جا سکتا تھا۔مگر صوبوں اور وفاق نے اس حوالے سے غفلت برتی۔ پڑوسی ملک ایران اس وائرس کی یلغار سے اتنا بوکھلا گیا کہ اس نے پاکستانی زائرین کو کسی قسم کی طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا اور انہیں تفتان کے سرحدی مقام پر لاکر کھڑا کر دیا۔ یہ ماضی کا حصہ ہے۔جو ہونا تھا ہوچکا اب اس کا ماتم کرنا بے سود اور وقت کا ضیاع ہے۔زائرین اور تبلیغی جماعت کے ذریعے بیماری پاکستان کے گلی کوچوں تک پھیل گئی۔لیکن یہ بے قابو نہیں ہوئی وفاق اور صوبوں نے جس حد تک روک تھام کر سکتے تھے اپنا فرض ادا کیا۔اگر اس میں کوئی ہیرا پھیری کی گئی ہے تو سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے ہیرا پھیری چھپائی نہیں جا سکتی سامنے آ جائے گی۔عدالتی ریمارکس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عدالت مطمئن نہیں کہ خطیر رقم درست انداز میں خرچ کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ عید تک ملک بھر میں تمام مارکیٹس پورا ہفتہ کھلیں گی۔عدالت سمجھتی ہے کہ بہت لوگ صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔اس لئے انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیئے۔تاجر برادری نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جبکہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عدالتیں فیصلہ دیتے وقت فہم و فراست کو ملحوظ خاطر رکھیں گی اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گی جس سے پاکستانیوں کی صحت اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔جج صاحبان طبی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلے سنائیں گی۔
یورپ اور امریکا میں کورونا وائرس نے جتنی تباہی پھیلائی اس کے مقابلے میں ابھی پاکستان تمام تر بد احتیاطی اور لاپروائی کے باوجود کورونا کی بڑے پیمانے پر تباہی سے بچا ہوا ہے۔اگر اس کا جواز یہ پیش کیا جائے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ بہت کم کئے گئے ہیں تب بھی یہ دلیل ماننے کوسچی بات ہے اکثریت تیار نہیں بلکہ ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو برملا کہہ رہے ہیں کہ کورونا کے نام پر ڈرامہ رچایا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ مارکیٹوں میں آنے والے ماسک پہنے بغیر ہی خریداری کرنے پہنچ رہے ہیں۔اس میں 50فیصد ہمارے قانون شکن مزاج کاعمل دخل ہو سکتا ہے اور 40فیصد کورونا کی بیماری کے وجود کو تسلیم نہ کرنا ہے۔اگر ہمارے ملک میں اٹلی، اسپین، فرانس، برطانیہ اور امریکا جیسا کورونا کا حملہ ہوا ہوتا توروزانہ ہلاکتوں کی رفتار ہزاروں میں ہوتی۔کورونا کسی ٹیسٹ کا محتاج نہیں کہ ٹیسٹ نہ کیا جائے تو یہ اپنا اثر نہیں دکھاتا ٹیسٹ نہ ہونے سے اس بیماری کو تیزی سے پھیلنے میں مدد ملتی ہے جس کی مثال مردان کے ایک خاندان کی ہے جہاں کورونا کو چھپانے کے نتیجے میں 46افراد متأثر ہوئے اور پوری یونین کونسل کو سیل کرنا پڑا۔لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ ٹیسٹ نہ ہونے کی بناء پر کورونا کیسز کی درست تعداد سامنے نہیں آرہی۔ کورونا وائرس کا مریض مرتے وقت جس تکلیف اور اذیت سے دوچار ہوتا ہے وہ اس کی شناخت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ فیصلہ مستقبل کے محققین پر چھوڑ دیا جائے کہ اس سست رفتار ہونے کے اصل محرکات کیا تھے یا کیا ہیں؟ البتہ کورونا کے نام پر کی جانے والی مالیاتی گڑبڑ اور روایتی چوری کے حجم کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔جس ملک میں،چینی، آٹا اور ادویات کو بھی لوٹ مار کا ذریعہ بنایا جاتا ہو وہاں یہ سوچنا بھی گہری کھائی میں کودنے کے مترادف ہے کہ کورونا کے نام پر 100فیصد ایمانداری سے کام کیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے گریڈ17سے21تک کے آفیسرز 8سال تک اپنی بیگمات کے نام پر خیرات اور صدقات کی وہ رقم وصول کرتے رہے ہیں جو غریب اوربیوہ خواتین کو ملنی چاہیئے تھی۔اگر افسران کی گرفتاریاں نہ ہوتیں تو وہ بھی پارسا بنے رہتے۔ جس ملک میں اخلاقی پستی کا یہ عالم ہو وہاں 500ارب روپے کے کرونا فنڈز کو ہڑپ کرنے والے کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟
لیکن اس تناظر کے باوجود کورونا کی پاکستان میں موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا احتیاطی تدابیر کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔موت کو دعوت دینا کسی لحاظ سے دانشمندی نہیں کہلا سکتی یہ رویہ اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے۔اٹلی جیسا منظر سامنے آنے کے امکانات کو جھٹلانا درست نہیں۔سپریم کورٹ یقیناً پاکستانیوں کے مزاج سے واقف ہے جہاں سگنل پر رکنا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے قطار میں کھڑے ہو کر بس میں سوار ہونے کی روایت نہ ہو،امتحانات میں نقل کرنا قومی حق مانا جاتا ہو،وہاں صرف دکانیں اور مارکیٹیں پورا ہفتہ کھولنے کا حکم کافی نہیں اس میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ گھروں سے نکلتے وقت ہر شہری حفاظتی تدابیر کو یقینی بنائے ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے۔ورنہ کورونا پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔لوٹ مار کرنے والوں کی چاندی ہو جائے گی وہ تو پہلے ہی اس کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں