بھاشا ڈیم خدشات و تحفظات

انور ساجدی
بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر دوسرا ڈیم ہوگا اگرچہ فی الحال یہ ڈیم اتنا متنازعہ نہیں ہے جتناکہ کالا باغ تھا جو سندھ اور پشتونخواہ کی مخالفت کی وجہ سے نہ بن سکا اور جب تک فیڈریشن ہے یہ کبھی نہیں بنے گا حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین نے بھاشا ڈیم کی تعمیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کی سائٹ کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے کیونکہ یہ خطرناک زلزلوں کی فالٹ لائن پر واقع ہے اس علاقے میں کوئی دن نہیں جاتا جب چھوٹے اور بڑے درجہ کے زلزلے ریکارڈ نہ ہوتے ہوں اس کی ایک خامی یہ ہے کہ یہ تربیلہ سے کہیں زیادہ اونچائی پر واقع ہے اور ماہرین نے ڈیم کی اپنی اونچائی بھی 171 میٹر رکھی ہے دو روز قبل جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اگر زلزلوں سے اس ڈیم کو نقصان پہنچایا یہ ٹوٹ گیا تو آگے سے تربیلہ بھی ٹوٹ جائیگا بیک پریشر سے نوشہرہ، صوابی اور سارا متصل علاقہ ایک طرح سے سونامی کی لپیٹ میں آجائیگا جبکہ تربیلہ سے نیچے دریائے سندھ پر ایک قیامت خیز منظر ہوگا تمام بیراج اور دیگر تعمیرات کا نام و نشان مٹ جائے گا اور پریشر سے آنے والا پانی سب کچھ بہا کر لے جائے گا دور دور تک علاقے نیست و نابود ہوجائیں گے خدا کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن ماہرین کی رائے یہی ہے چونکہ چین کی سرکاری کمپنی چائنا پاور اس کی تعمیر کی ذمہ دار ہے جو چین میں اس سے بھی بڑے پروجیکٹ بناچکی اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ چین نے تمام حالات کو سامنے رکھ کر اس پروجیکٹ کو تعمیر کرنے کی حامی بھری ہے بھاشا ڈیم کے سلسلے میں ایک تنازعہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس کی جھیل گلگت بلتستان اور ڈیم کی جگہ خیبر پشتونخواہ میں ہے لہٰذا اس کی آمدنی پر سوال اٹھے گا چونکہ اس وقت گلگت بلتستان کے لوگ بوجوہ سیاسی طور پر کمزور ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی تحریک چلا سکیں لیکن مستقبل میں احتجاج کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتااس ڈیم کی اسٹرٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے چین پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قدم رکھ چکا ہے اس کے دو ہزار ماہرین اس علاقہ میں طویل عرصہ تک مقیم رہیں گے جبکہ مزدوروں کی اکثریت بھی وہاں سے آئے گی اس حوالے سے چین کی بہت زیادہ سرگرمیاں ہونگی سنکیانگ سے بھاشا تک ہر طرف چینی ہی چینی نظر آئیں گے اگر بھاشا ڈیم کے مالکانہ حقوق چین کے پاس ہوئے جیسے کہ قیصر بنگالی کا دعویٰ ہے تو یہ علاقہ ایک مستقل چینی کالونی کی حیثیت اختیار کرلے گا چینی باشندوں کی ضروریات کے بازار بھی بنیں گے ان کے کھانے پینے کے مراکز بھی قائم ہونگے جبکہ بے شمار دیگر معاملات سامنے آجائیں گے اس علاقہ میں چین کی موجودگی سے انڈیا ایک دائمی تکلیف سے گزرے گا کیونکہ وہ شمالی علاقہ جات کو کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے لیکن انڈیا اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ گلگت بلتستان میں کوئی کارروائی کرسکے لیکن وہ کئی اور طریقوں سے دباؤ ڈالے گا اور لائن آف کنٹرول پر اپنی کارروائیاں بڑھائے گا۔
صوبہ سندھ سے بھاشا ڈیم کی مخالفت میں کچھ آوازیں اٹھی ہیں لیکن وہ بہت مدھم ہیں اس طرح کی صورتحال نہیں ہے جو کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں تھی اس کی وجہ سندھ کے لوگوں کو سیاسی اعتبار سے پس پشت رکھنا ہے غالباً ایک اور وجہ پیپلز پارٹی ہے جو خود کو وفاق کی علامت سمجھتی ہے حالانکہ وہ اپنی یہ حیثیت کھوچکی ہے ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے قومی سوال کو بہت دبادیا تھا اور 1973ء کے آئین کے ذریعے اس کے وسائل وفاق یعنی پنجاب کے حوالے کردیئے تھے اس کے بدلے میں سندھ کی اشرافیہ کو اقتدار میں شریک کیا گیا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ شراکت داری ٹوٹ گئی ہے یا یک طرفہ ہے بھٹو نے مقتدرہ کی خوشنودی کیلئے سندھ کی قومی تحریک کو جس طرح کچل دیا تھا وہ دراصل ایک المیہ سے کم نہیں ہے سندھ اس طرح گرفت میں ہے کہ ریتی سے لیکر منوڑہ تک کوئی سر نہیں اٹھا سکتا اس کے جملہ وسائل وفاق کے زیر استعمال ہیں لیکن پیپلز پارٹی سندھ حکومت پرصابرو شاکر ہے اور وہ مسلسل سندھ کی حکومت پر سمجھوتے کررہی ہے تاکہ اس پر مرکز گریز رجحانات کا لیبل نہ لگ سکے۔
وڈیرہ شاہی تو انگریزوں کے دور میں بھی تھا لیکن تقسیم کے بعد ہندوؤں کی زمینیں بھی بندر بانٹ کی گئیں مقتدرہ نے اس وڈیرہ شاہی کو سیاسی قوت دے کر نئی شکل دی اور خود بھی وڈیرہ شاہی کا حصہ بن گئی اس نے سندھ کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کو زمینیں الاٹ کرکے بسایا اس کے باوجود وہ کبھی سندھ کے وفادار نہیں رہے سندھی عوام کا استحصال ایک طرف سیاسی وڈیرے سید اور پیر کرتے رہے تو دوسری طرف مقتدرہ نے بھی بڑا قہر ڈھایا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ عام سندھی وسائل میں اضافہ کے باوجود بدترین زندگی گزار رہا ہے اس کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں بھی بہت مدھم اور بے اثر ہیں بھوک اور ننگ کا ہر طرف راج ہے وڈیرے علاج کیلئے ولایت کا رخ کرتے ہیں جبکہ غریب لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تکلیف دہ موت پر مجبور ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے سندھ کو کمزور کرنے کیلئے مرکز میں پنجابی پختون اتحاد بنایا تھا اور اقتدار سے سندھ کو نکال باہر کرکے ایک نئے پاور شیئرنگ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن یہ اتحاد بھی ٹوٹنے کے قریب ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھی پختون عوام کا استحصال کیا گیا ضیاء الحق نے سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی تھی جو مقامی لوگو ں کے خلاف الشمس اور البدر کا کردار ادا کررہی تھی لیکن جب اس کے استعمال کی ضرورت نہ رہی تو اسے بھی پاور شیئرنگ سے باہر نکال دیا گیا اگر آصف علی زرداری نے سمجھوتہ نہ کیا اور پوراسندھ حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کو سندھ سے بھی بے دخل کردیا جائے گا جیسے کے پنجاب سے ضیاء الحق نے کردیا تھاغلام اسحاق نے جو کہ مقتدرہ کے پکے نمائندے تھے جام صادق علی کو مسلط کیا تھااور مشرف نے اقتدار ایم کیو ایم کو دے کر وزارت اعلیٰ پر ارباب غلام رحیم کو بٹھادیا تھا مستقبل قریب میں سندھ اور بلوچستان پر اس وقت بدترین دباؤ آئے گا جب ریاست کو چلانے کیلئے مرکز کو دونوں صوبوں کے جملہ وسائل درکار ہونگے سندھ کی گیس اس کا تیل اور سمندر پہلے سے مرکزی کے کنٹرول میں ہیں لیکن اسے تھر میں کوئلہ کے لاکھوں ٹن بھی درکار ہیں کیونکہ توانائی کے موجودہ بیشترمنصوبے ناکارہ ہیں اور ایک عشرے میں وفاق ان کے استعمال ترک کرنے پر مجبور ہوجائے گا اس وقت تھر کے توانائی کے وسائل کی اشد ضرورت پڑے گی اسی طرح بلوچستان کے ساحل اور وسائل کو زیادہ تیزی اور بے رحمی کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت درپیش ہوگی۔
چنانچہ مزاحم قوتوں کو غیر مؤثر کردیا جائے گا بلوچستان میں تو پہلے سے تابع فرمان حکومتوں کی روایت ڈال دی گئی ہے جبکہ سندھ میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائیگا وفاق کیلئے اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے قرب و جوار کے جو قیمتی جزائر ہیں وہ صوبائی ملکیت میں ہیں وفاق ان جزائر کو پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر کھربوں روپے حاصل کرنا چاہتا ہے آئندہ سال سے ریاست کوچلانے کیلئے ریلوے کی کھربوں روپے کی زمین بیچنے اور ہوائی اڈوں کو لیز پر دینے کا پروگرام ہے نیویارک میں اربوں ڈالر مالیت کا جو روز ویلٹ ہوٹل ہے جو پی آئی اے کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اسے بھی فروخت کردیا جائے گا اگر مرکز کا بس چلے تو وہ اسٹیل مل کی بچی کچھی اراضی بھی فروخت کردے گی جو اصل میں سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔ان اثاثوں کو بیچنے یا تلف کرنے کے باوجود گزارہ نہیں ہوگا کیونکہ اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں مثال کے طور پر حکومت کو کرونا کے بعد تقریباً 2 ارب ڈالر کی امداد مل چکی ہے لیکن اس سلسلے میں مکمل خاموشی ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے۔
وفاقی حکومت پر سخت دباؤ ہے کہ تنخواہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا جائے خسارہ پہلے ہی زیادہ ہے یہ ایک اور بوجھ ہوگا۔
اگر سندھ کے سیاستدانوں میں جان ہوتی تو وہ بھاشا ڈیم کے خلاف بھی کالا باغ ڈیم کی طرح آواز اٹھاتے اس مرتبہ وہ اکیلے ہیں کیونکہ پشتونخواہ ڈیم کے حق میں ہے اس کا خیال ہے کہ ڈیم سے جو بجلی بنے گی اس کا منافع اسے حاصل ہوگا سندھ تو خسارہ میں رہے گا کیونکہ دریائے سندھ کے اوپر کے حصے کا پانی بھاشا ڈیم میں ذخیرہ ہوگا ایسا ممکن ہے کہ تربیلہ ڈیم کے بھرنے کی نوبت نہ آئے دونوں ڈیموں کی وجہ سے سندھ میں پانی بہت کم آئیگا جس کی وجہ سے اس کی زراعت تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے اس وقت بھی ڈیلٹا تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار ہے بھاشا کی بجائے اور مقامات کو چن لینا چاہئے تھا جیسے کہ مہمند ڈیم پاکستان کے حکمران اور منصوبہ ساز نہ کوئی وژن رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا وجدان درست ہے وہ اپنے ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں جبکہ ان کے پاس ایسی کوئی صلاحیت نہیں کہ وہ ایک دپرپا منصوبے کے ذریعے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔
آج عمران خان سمیت اس خیال کے سارے لوگ ایوب خان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے لیکن سندھ طاس کا معاہدہ ایوب خان نے کیاتھا جس کے تحت کشمیر سے نکلنے والے تمام دریاؤں کا پانی بھارت کو دیدیا گیا تھا تربیلہ ڈیم کی تعمیر کیلئے عالمی بینک اور دیگر اداروں نے بھاری تعاون فراہم کیا تھا لیکن ایوب خان اس پروجیکٹ کو مکمل نہ کرسکے تھے اسے بھٹو کو مکمل کرنا پڑا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں