دنیا پر جنگیں مسلط کرنے والے امریکا کی پاکستان میں مداخلت پر سفارتی سطح پر باز پرس کی جائے، امان اللہ کنرانی

کوئٹہ : سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں مبینہ طور پر پانچ درجن امریکی ایوان نمائندگان نے اپنی حکومت کے وزارت خارجہ کو لکھے گئے خط کے ذریعے پاکستان سے ایک فرد واحد کو فوجداری جرائم سے بچانے و دباﺅ ڈالنے کا مطالبہ کرکے دراصل پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہوئے داخلی معاملات میں مداخلت کی مرتکب ہوئے ہیں جس پر نہ صرف احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفیر متعین پاکستان سے باز پرس کرنی چاہئے ہمیں اپنی قومی خودمختاری و دفاع پر کسی سیاسی مصلحت و سفارتی آداب کے گرداب و شکنجے سے بالا تر ہو کر مداہنت کو ترک کرکے جرات کے ساتھ جواب دینا پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کے ذریعے ان کے خط کے مندرجات کو مسترد کرکے ان کے منہ پر مارنا چائیے ان کو یاد دلایا جائے جب ایک ڈکٹیٹر نے 1977ءمیں ایک جمہوری و سیاسی حکومت کا تختہ الٹا اس وقت ان کی جمہوری سوچ کہاں گءتھی پھر اسی منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تب انکی انسانیت کا لبادہ کیوں کھل نہ سکا بلکہ ایک آمر کو اپنا مہرا بناکر ایک دہائی تک پاکستان کو ایک ایسی گناہ بے لذت جنگ میں دھکیل دیا جس کے اثرات آج تک ہمارا معاشرہ بھگت رہا ہے ہم ایک طاقتور ترین قوم خوشحال ملک سے کمزور ترین و بدحال ملک بن گئے ہیں امریکہ کو اس کا آئینہ ایران و عراق و لیبیا و افغانستان و سوڈان و مصر کے اندر براہ راست مداخلت جنگ و ان کی صلاحیتیں و معیشت تباہ و برباد وسائل پر قبضہ وحکومتوں کی تبدیلی و اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنے کے باوجود اپنا چہرہ ایک سیاسی جمہوری شکل میں پیش کررہا ہے مکافات عمل میں یوکرین میں مداخلت سے انکی چیخیں نکل گئی ہیں ان کو محسوس ھونا چاہئیے دوسرے ملکوں کے لوگ بھی انسان و انسانی حقوق رکھتے ہیں ہم کسی بھی ملک میں کسی کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں تاہم دوسروں کو بھی اپنے اندرونی معاملات میں باز رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہم کمزور ضرور ہیں مگر ہماری غیرت و انا و اتحاد و دفاع مضبوط ہے ان کو پل چرخی و گوئنٹاناما جیل و عافیہ صدیقی ایک ضعیف خاتون کی جیل میں موت و زندگی کا بھی سوال کرنا چاہیے ان سے کمبوڈیا سے بھاگنے کی وجوہات بھی معلوم کرنی چاہیں آج کل ان کے اپنے ملک کے اندر معاشی شکست و ریخت پر بھی سوال کرتے ہوئے اسی پر توجہ مرکوز رکھنے کا تقاضا کرنا چاہئیے ان سے ان کے معاشی و اقتصادی نا ہموار یوں کے خلاف ایک درجن سے زائد ممالک ڈالر کو چھوڑ کر اپنی واحد کرنسی کے اجرا پر متفق و بھارت کے ساتھ ڈیڑھ درجن ممالک ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی روپے میں کاروبار پر متفق ہونے میں اس کی خارجہ و اقتصادی پالیسی کی ناکامی پر بھی شرم دلانا چائیے اس لئے ایسا عروج سے زوال پذیر ملک اپنا زخم چاٹنے کی بجائے ایسی صورتحال کے اندر دوسروں کو دھمکانا چھوڑ دے دنیا میں پہلے دو بلاک ہوا کرتے تھے پھر صرف ایک بلاک رہ گیا اب چار دھائیوں کے بعد اب دنیا کے اسی واحد بلاک کے خلاف دراڑیں پڑنا شروع ھوگئی ہیں پاکستان کو اس سفید ہاتھی سے گھبرانا نہیں بلکہ نئی تبدیلیوں و اپنی جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا کر اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنی چاہئیں علاقائی تنازعات کو چین و بھارت کے طرز پر ایک طرف رکھ کر قومی رابطوں کو فروغ دیاجائے شنگھائی کانفرنس پلیٹ فارم سمیت ایران سے تجارت کی دو طرفہ منڈیوں تک رسائی کے خوش عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ایران سے ادھورے گیس پائپ لائن منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے پاکستان کو ایران کے توسط سے ترکی و یورپ و افغانستان کے ذریعے جنوبی ایشیا و یورپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چین و بھارت کی دنیا کی آبادی و وسیع تجارت و تجربات و ہنر کے تناظر میں پاکستان بھی منڈیوں تک رسائی میں باہمی تعاون سے استفادہ کرکے امریکہ پر انحصار کم کردے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں