بی این پی مینگل: حکومتی اتحاد سے علیحدہ

اداریہ
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے قائد سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت سے کیا جانے والا اتحادختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا جس معاہدے کے تحت یہ اتحاد ہوا تھا اس پر دو سال تک عمل نہ ہونے کے باوجود اتحاد میں شامل رہنے کا کوئی جواز نہیں۔انہوں نے ایوان سے بھی شکایت کی کہ یہاں چینی، آٹا اورٹماٹر پر تو بحث ہوتی ہے مگر بلوچستان کے مسئلے پر کبھی کوئی بات نہیں ہوتی۔ایک بہن اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے چار سال تک لڑتی رہی دو روز قبل اس نے مایوس ہوکر خود کشی کر لی۔مجھے والدین کے پیغام ملتے ہیں: ہم بچوں کو کیوں تعلیم دلائیں؟ پڑھ لکھ کر انہیں حق اور نا انصافی میں فرق کی تمیز آئے گی۔یہاں کشمیر پر کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں بناؤمگرکشمیر ملے گا، کب ملے گا؟ کسی کو معلوم نہیں مگر جو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اس کو تو بچاؤ۔بلوچستان کے ساتھ حساب کرو گے تو تمہارا بال بال قرض دار نکلے گا سوئی گیس کی رائلٹی تو دور کی بات ہے ہمیں تو گیس بھی نہیں ملی۔انہوں نے کہا دوسال تک انتظارکیا یہ بہت ہے گاڑی پر جھنڈا لگانے سے کوئی وفادار نہیں ہوتا جھنڈا لگی گاڑی کو کوئی نہیں پوچھتا،چاہے اس میں بارود لے جایا جا رہا ہو۔بلوچستان میں آن لائن تعلیم کا وجود ہی نہیں یہاں تھری جی اور فور جی کی سہولت گزشتہ آٹھ سے ختم کردی گئی ہے۔آپ آن لائن تعلیم کی بات کرتے ہیں ہمیں تو عام لائن میں کوئی کھڑا نہیں ہونے دیتا۔لیکن یاد رکھو آج حق نہیں دیا تو کل ضرور دینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہر موقع پر (اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سینیٹ چیئرمین، وزیراعظم اور صدر کے انتخابات اور بجٹ کی منظوری میں)اپوزیشن کے شدید دباؤ کے باوجود بھی حکومت کا ساتھ دیا مگر ہمیں کیاملا؟ معاہدے پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ہم حکومتی اتحاد سے الگ ہوئے ہیں مگر ایوان میں موجود رہیں گے اپنی بات کرتے رہیں گے۔
بی این پی مینگل کی علیحدگی سے حکومت کو قومی اسمبلی کی چار نشستوں اور سینیٹ کی ایک نشست کی حمایت سے محروم ہو گئی ہے۔پہلے ہی اس کے پاس گنتی پوری کرنے میں دو چار کی برتری حاصل تھی۔اب وہ بھی جاتی رہی۔دیگر اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے میں کافی محنت کرنا پڑے گی۔دیگر اتحادی جماعتوں سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے، ایم کیو ایم کو شکایتیں ہیں۔جی ڈی اے بھی زیادہ خوش نہیں۔کراچی پیکج کا وعدہ بھی تا حال کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ایسی صورت حال میں بی این پی مینگل کی اتحاد سے علیحدگی پی ٹی آئی کے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث ہوگی۔ حکومت آنے والے دنوں میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات کرے گی، وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا۔اغلب امکان ہے حکومت کی جانب سے بی این پی کے قائد اور دیگر رہنماؤں کو راضی کرنے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔لیکن سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے فلور پر جس طرح اپنی علیحدگی کے اسباب گنوائے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ معاہدے کے نکات پر عملدرآمد کے بغیر بی این پی کی اتحاد میں واپسی آسان نہیں۔
حکومت کے پاس باوقار راستہ تو یہی ہے کہ معاہدے پر عمل کی یقین دیانی کی بجائے اس پر عمل کرے۔ پانچ سال میں دوسال تک اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہ ہونا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے، یہ مدت اقتدار کا 40فیصد حصہ ہے ڈھائی سال میں یہاں حکومتیں بدلنے کی روایت رہی ہے۔ماضی قریب کا قصہ ہے۔ لگتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت معاہدے پر عمل کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جبکہ معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما(شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور سردار یار محمد رند) شامل ہیں۔ جن کے کہنے پر دستخط کئے گئے تھے انہوں نے کوئی مجبوری بیان کر دی ہوگی۔ایک پیج پر ہونے کے عملاً وہ معنے نہیں ہوتے جو کتابوں میں درج ہیں۔عملی اقدامات کے لئے دستخط کرنے والوں کا قدوقامت بھی دیکھا جاتا ہے۔معاہدے پر دوسال تک عمل نہ ہونے پریہی کہا جا سکتا ہے کہ دستخط کرنے والوں کا اپنا وزن معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ایک بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں باقی دو کی اپنی نادیدہ مجبوریاں ہوں گی۔سردار اختر مینگل بھی جہاندیدہ شخصیت ہیں معاملہ فہم ہیں انہوں نے جان لیا ہوگا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ایوان میں موجود رہنے سے یہ اشارا ملتا ہے کہ ابھی وہ کسی حد تک امید رکھتے ہیں کہ جلد یا بدیرمعاہدے پر پیشرفت کی راہ میں حائل ہونے والوں کو عقل آ جائے گی اور وہ بلوچستان کو اس کا حق دینے کے لئے راضی ہو جائیں گے۔دنیا امید پر قائم ہے دیکھیں مستقبل کیا نوید سنائے گا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں