حب اور لسبیلہ میں منشیات کے اڈوں کے خلاف احتجاجی ریلی، خواتین و نوجوانوں کی شرکت

لسبیلہ: بلوچستان میں منشیات کے استعمال کی بڑھتی ہوئی رحجان اور نوجوان میں منشیات کا زہر منتقل کرنے و حب سمیت لسبیلہ بھر میں منشیات کے فروخت و اڈوں کی آباد کاری کے خلاف منشیات کے خلاف جنگ ٹیم کے زیر اہتمام ہفتے کے روز لسبیلہ پریس کلب سے سامنے سے ایک احتجاجی ریلی برآمد ہوئی ریلی میں طلباء وطالبات،نوجوانوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت ریلی کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کا گشت کیا اورمنشیات مٹاؤ نوجوان نسل بچاؤ اور نوجوان نسل کو جینے دو کا نعرہ لگاتے رہے ریلی مین RCDشاہراہ سے ہوتی ہوئی دوبارہ لسبیلہ پریس کلب پہنچی جہاں پر ریلی کے شرکاء و مظاہرین سے سازین بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ منشیات ایک زہر ہے جسے ایک سازش کے تحت بلوچستا ن کے نوجوانوں کے رگوں میں تیز سے منتقل کیا جارہاہے اور انہیں نشے کا عادی بنایا جارہاہے اب تک ہمارے سینکڑوں نوجوان بھائی منشیات جیسے زہر کے استعمال کے سبب اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان منشیات جیسے لعنت میں مبتلا ہے اور منشیات فروش ہمارے نوجوان نسل کو تباہی کی جانب راغب کر نے میں مصروف ہیں انھوں نے کہاکہ آج ماؤں اور بہنوں سے درد پوچھا جائے جن کے لخت جگر اور اکلوتا بھائی منشیات کے عادی بن کر اور معاشرے میں در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور اپنی نشہ پوری کرنے کیلئے اپنے ہی گھروں کے سامان چوری کر کے فروخت کرنے پر مجبور ہیں انھوں نے کہاکہ جان بوجھ کر اور ایک سازش کے تحت بلوچستان کے نوجوان نسل میں منشیات کا زہر منتقل کیاجارہا ہے تاکہ یہ نوجوان آگے بڑھنے سے پہلے ہی غیر موثر ہو کر باکارہ ہو جائیں تاکہ وہ اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے سے قاصر رہیں انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں منشیات کے روک تھام کیلئے ہم سب نے جدوجہد کرنا ہے تاکہ آئندہ آنے والا ہماری نوجوان نسل اس لعنت سے محفوظ رہ سکے مظاہرین سے عبداللہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حب میں سرعام منشیات فروت ہو رہا ہے جس کی واضح مثال یہی ہے کہ اے سی حب ہاؤس سے متصل ہی منشیات کے اڈے قائم ہیں اور سرعام منشیات فروشی کیاجارہاہے انھوں نے کہاکہ جن گھروں میں منشیات فروخت کیا جاتا ہے ان ہی بچے اس لعنت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اور انکی بھی زندگی تباہ ہو رہی ہے انھوں نے کہاکہ ہم منشیات فروشوں سے مقابلہ تو نہیں کر سکتے لیکن اتنا کر سکتے ہیں کہ جہاں جس گلی محلے میں منشیات فروخت ہو رہاہے وہاں پراحتجاجی مظاہرہ کیا جائیگا تاکہ لوگوں میں منشیات سے تباہی کے حوالے سے شعور بیدار ہو سکے اور اپنے بچوں کو منشیات جیسے زہر سے دور کرسکیں مظاہرین سے بیبرگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی طرح لیاری کراچی میں بھی منشیات کے زہر کے ذریعے نوجوان نسل کو تباہی کی جانب راغب کیا گیا ہے اور گلی محلے میں نوجوان نشے کی حالت میں پائے جاتے ہیں حالانکہ منشیات کے عادی نوجوانوں کی علاج معالجہ کیلئے بہت سے NGOsکو فنڈنگ بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کارکردگی صفر ہے ان تو این جی اوز نشے میں مبتلا نوجوانوں کے علاج کراتے ہیں اور نہ ہی ڈرگس سے نجات دلانے کیلئے کوئی اسپتال قائم کیا جارہا ہے بلکہ انہیں جتنے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں وہ NGOsکے حکام ہی بتاسکتے ہیں انھوں نے کہاکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آیا کہ بلوچستان سے کراچی تک منشیات کیسے اسمگلنگ کیا جاتا ہے راستے میں بہت سے اداروں کے چیک پوسٹ بھی قائم ہیں اس کے باوجود منشیات کا اسمگلنگ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے مظاہرین سے محمد جان مری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نوجوان نسل اور مستقل کے معماروں کو منشیات کے لعنت سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کر کے انہیں مستقل کا ڈاکٹر ز،انجینئرز،اساتذہ،وکلاء بنا چاہئے انہیں تباہی والے سے راستہ سے نکال کر اچھے معاشرے میں داخل کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مستقل کے معماروں کو ایک سازش کے تحت نشے کا عادی بنا دیا گیا ہے اور ہر وقت جھاڑیوں میں پڑے نظر آتے ہیں پولیس انتظامیہ اینٹی نارکوٹکس کے اداروں کے معلوم ہے کہ منشیات کہاں سے آتا ہے اورکہاں منشیات کے اڈے قائم ہیں ان کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتے ہیں انھوں نے کہاکہ خدارا ہمارے نوجوان نسل کی زندگیوں کو بچایا جائے اورمنشیات جیسے ناسور کے روک تھام کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں انھوں نے کہاکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے گزشتہ سال نشے کے عادی افراد کے علاج معالجہ کے سلسلے میں اسپتال کا اعلان تو کیا گیا لیکن اسپتال کا قیام آج تک عمل نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے لسبیلہ میں نشے میں مبتلا نوجوان علاج سے یکسرمحروم ہیں مظاہرین سے قندیل بلوچ،یاسین بلیدی،نصیر مگسی،خیر بخش بلوچ،غلام رسول مری و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان بھر میں منشیات کی لعنت تیزی سے پھیلی جارہی ہے جس سے ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف گامزن ہو چکا ہے اور انہیں منشیات سے نجات دلانے کیلئے ہم سب کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے انھوں نے کہاکہ لسبیلہ میں جس طرح سے منشیات کے استعمال کرنے کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی طرح یہاں کے لوگ مضر صحت گٹکا کے بے انتہا استعمال کر رہے ہیں انھوں نے کہاکہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران لسبیلہ میں بازاریں مارکٹیں،اسکولز وغیرہ کو بند کردیئے گئے لیکن منشیات کے اڈے،شراب خانے اور گٹکے کے کارخانے کھلے رہے ہیں اس جانب کوئی کاروائی نہیں ہوئی انھوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستا ن بھر میں منشیات کے اڈوں ومنشیات فروشی کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ ہمارے نوجوان نسل منشیات جیسے زہر قتل سے محفوظ رہ سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں