سرفراز بگٹی کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل لاپتہ افراد کی زندگیوں اور متاثرین کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے، سمی دین بلوچ
کوئٹہ (پ ر)وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں بنائی جانے والی لاپتہ افراد کمیٹی پر سیاسی و سماجی افراد و تنظیموں کی شدید تنقید و عدم اعتماد کا اظہار۔بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے عوامی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جبری گمشدگیوں پراس سے پہلے کئی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں COIOED جیسی کمیشن بنائی گئی.گزشتہ سال IHC کی جانب سردار اختر مینگل کی سربراہی میں بنایا گیا ایک اور کابینہ کمیٹی اس حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر قانون اعظم نزیر کی سربراہی میں بنایا گیا اور انکی طرف سے آج تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئی۔حکومت کی سنجیدگی کا مظاہرہ اس بات سے کیا جاتا ہیکہ جبری لاپتہ افراد کے کیسز کیلئے نئی کابینہ کمیٹی ایسے شخص کی سربراہی میں بنایا گیا ہے جو جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ماننے سے انکاری ہےانصاف تو دور کی بات ہے ایسے کمیٹیاں بناکر صرف ہم متاثرہ خاندانوں کے جزبات اور ہمارے پیاروں کی زندگیوں سے کھیلا جارہاہے۔ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کے کمپین و پروجیکٹ کوآرڈینیٹر عائشہ جنجوعہ نے لکھا ہے ایک اور کمیٹی، ہم صفر کارکردگی کے ساتھ بنائی جانے والی کمیٹیوں سے تھک چکے ہیں۔وائس فار بلوچ جسٹس کے رکن و بلوچ ایکٹوسٹ لطیف بلوچ نے کہا ہے کہ سرفراز بگٹی کو لاپتہ افراد کمیٹی کا سربراہ منتخب کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ لاپتہ ہونے والوں کی قسمت کا فیصلہ ان لوگوں کو کرنا ہے جو ان کی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔بلوچ وائس فار جسٹس کے ایکس ہینڈل پر پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ سرفراز خود ہمیشہ اس معاملے میں فریق بن کر سامنے آئے ہیں اور جبری گمشدگیوں کی تردید کرتے رہے ہیں۔ انہیں کمیشن کا سربراہ بنانا نہ صرف ایک بھونڈا مذاق ہے بلکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔