ڈاکٹر منظور بلوچ ۔۔ہم شرمندہ ہیں

طاہرحکیم بلوچ
گزشتہ دنوں یونیورسٹی آف تربت کے مین گیٹ پر ممتاز بلوچ کالم نویس،ادیب،جامعہ بلوچستان میں شعبہ براہوی کے پروفیسر اور یونیورسٹی آف تربت کے رکن سینیٹ ڈاکٹر منظوربلوچ کے ساتھ جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اس کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے ایک بھرپور ردعمل سامنے آیا۔واضح رہے کہ ڈاکٹر منظوربلوچ بساک(بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی)کی جانب سے جامعہ تربت میں ہونے والے ایک لیکچر پروگرام بعنوان ‘بلوچ طلباء اور عصری تقاضے’ میں بحیثیت مہمان اسپیکر شرکت کرنے کیلئے جب یونیورسٹی کے مین گیٹ پرپہنچے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں ساتھیوں سمیت روک دیاجس کے نتیجے میں بساک کے کارکنوں اور گیٹ پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان نہ صرف سخت، تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا بلکہ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی اس رویے کے خلاف ڈاکٹر منظور بلوچ کو احتجاجا واپس جانا پڑا۔بعد ازاں اس اقدام کے خلاف سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ایک بحث نے جنم لیا اور یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کی اس روش اور رویے کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے جلد اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منظور بلوچ کو لیکچر دینے سے روکنا نہ صرف تعلیم دشمنی ہے بلکہ بلوچ اقدار اور بلوچیت کی کھلی پامالی ہے۔بیان میں مزید کہاگیا ہے کہ منظوربلوچ بطور مہمان اسپیکر مدعو تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی ہی یونیورسٹی کی رکن سینیٹ کے ساتھ جوہتک آمیز رویہ اپنایا ہے وہ قابل مزمت ہے۔بساک ترجمان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے بعد میں اسے مشروط بنیادوں پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ کران میڈیکل کالج کے جن طلبا پر یونیورسٹی آف تربت نے پابندی عائد کردی ہے ،وہ ان کے ساتھ نہیں آ سکتے۔لیکن ڈاکٹرمنظوربلوچ نے ان کا یہ شرط مسترد کرتے ہوئے وہاں سے واپس چلے گئے بعد ازاں یہ لیکچر پروگرام یونیورسٹی آف تربت کے ساتھ واقع مکران میڈیکل کالج میں منعقد ہوئی۔ترجمان نے مزید کہا ہے کہ انتظامیہ نے جامعہ تربت کو ایک جیل خانہ بنا دیا ہے۔گیٹ پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ اور انداز گفتگو انتہائی غیر شائستہ اور نامناسب ہے۔جبکہ دوسری طرف یونیورسٹی میں غیر متعلقہ لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے لیکن ان پر کوئی پابندی عائد نہیں ،آخر یہ پابندی طلبہ ،پروفیسر اور کتابوں پر کیوں عائد ہے؟دوسری طرف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار نے بھی اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو تعلیم دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل ان شعور دشمن قوتوں کے ایما ء پر کیا گیا ہے جو اس مادرعلمی کو مزید تباہی کی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔حق دو تحریک بلوچستان کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں نہ صرف اس واقعے کی شدید مزمت کی ہے بلکہ اس عمل کو بھی ان تعلیم دشمن پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ترجمان نے مزید کہا ہے کہ تربت یونیورسٹی کتابوں اور اساتذہ کے داخلے پر پابندی سے علم کی کوئی خدمت نہیں کررہی ہے۔جبکہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے ایک بیان میں بھی واقعہ کی مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیوں کو پبلک پراپرٹی بنانے کی بجائے جیل خانہ بنایا گیا ہیاورڈاکٹر منظوربلوچ کو طالب علموں کے ساتھ مکالمہ کرنے اور لیکچر دینے سے روکنا قابل مذمت عمل ہے۔آل پارٹیز کیچ نے واقعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ تربت ایک مشترکہ قومی اثاثہ ہے لیکن پے درپے ہونے والے واقعات نے یونیورسٹی انتظامیہ کی اہلیت پر سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر علمی و ادبی پروگرام ،تنقیدی مطالعہ و مباحثے کی اجازت نہ دینا اور ڈاکٹر منظور بلوچ جیسی علمی و ادبی شخصیت اور ایک یونیورسٹی پروفیسر کو یونیورسٹی میں داخلے سے روکنا انتہائی افسوسناک اور غیر علمی رویہ ہے۔جبکہ آل پارٹیز یونیورسٹی انتظامیہ کی اس رویے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ کیمپس کے اندر طلبہ طالبات کو ایک پر امن علمی ماحول فراہم کیا جائے۔فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن(فپواسا)اور اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن جامعہ بلوچستان نے بھی ایک مشترکہ بیان میں واقعہ کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے اسے ایک تعلیم دشمن عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یونیورسٹی آف تربت کو سنگینوں کے سائے میں چلانے کی بجائے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے طور پر چلانے کی ضرورت ہے۔جبکہ ترجمان نے اعلیٰ انتظامی عہدیداروں کی برطرفی کا بھی مطالبہ کردیا ہے۔اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن یونیورسٹی آف تربت نے بھی اپنے ایک مزمتی بیان میں یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کو غیر ضروری اور بلا جواز قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے دانستہ اورغیر دانستہ تعلیم دشمن رویوں اور پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔جامعہ تربت کے شعبہ سیاسیات کے ایک استاد نے واقعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئیلکھا ہے کہ یونیورسٹی کو اتنا نقصان طلبا سیاست،کتب میلوں،اور نعروں نے نہیں دی ہے جتنا نقصان ان غیر منطقی اور غیر ضروری پالیسیوں نے دی ہے۔انہوں نے مزید لکھا ہیکہ ان پالیسیوں کے متعلق ہر چوک،چوراہے پر وضاحتیں دے دے کر اب ہم تھک چکے ہیں۔ڈین فیکلٹی آف سائنس،انجنئر نگ اینڈ آئی ٹی ڈاکٹر حنیف الرحمان نے واقعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اپنے فیس بک وال پر دوتصاویر اس کیپشن کے ساتھ شیئر کئے ہیں کہ ایک طرف یونیورسٹی انتظامیہ مین گیٹ پر بلوچستان بیوروکریسی کے چند اہم افیسران اورایک اٹھارہ گریڈ کے ڈپٹی کمشنر کو ہنستے مسکراتے بخوشی اور قابل فخر انداز میں ویلکم کررہی ہیں جبکہ دوسری طرف وہ اپنے ہی سینیٹ رکن اور اکیڈمک برادری سے تعلق رکھنے والے ایک قد آور پروفیسر کو بزور طاقت یونیورسٹی کے اندر داخل ہونے سے روک رہی ہیں۔جامعہ تربت کے فیکلٹی آف لٹریچر اینڈ لینگویجز کے ڈین اور ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف بلوچی لینگویجز اینڈ کلچر ،پروفیسر ڈاکٹرعبدالصبور بلوچ نے بھی اپنے سوشل میڈیااکاؤنٹ میں واقعہ کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے اسے ایک انتہائی بچگا نہ عمل قراردیا ہے۔جبکہ واقعہ سے متعلق یونیورسٹی آف تربت نے اپنے ایک وضاحتی بیان میں اپنا نقطہ نظر دیتے ہوئے کہا ہے کہ پروفیسر منظور بلوچ ان کیلئے انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں،لیکن اسے جس پروگرام کے لئے جس طلبہ تنظیم نے مدعوکیا تھا اس کی پیشگی اطلاع نہ اس طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی انتظامیہ کو دی ہے اور نہ منظوربلوچ نے اپنے آنے کی اطلاع یونیورسٹی انتظامیہ کو فراہم کی ہے۔لیکن جونہی وائس چانسلر کو منظور بلوچ کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اسے خوش آمدید کرنے کیلئے نہ صرف رجسٹرار کو اس کے پاس بھیجا بلکہ لیکچر پروگرام کے انتظامات کے لئے احکامات بھی جاری کردئیے جبکہ رجسٹرارنے نہ صرف وائس چانسلر کے احکامات کی روشنی میں نہ صرف ملٹی پرپز ہال میں لیکچر کے لئے انتظامات کرلئے بلکہ انہیں ویلکم کرنے کے لئے خود گیٹ تک بھی گئے۔لیکن معاملے نے اس وقت گھمبیر شکل اختیار کی جب یونیورسٹی آف تربت نے اپنی پالیسی کے تحت غیرمتعلقہ طلبہ اور آؤٹ سائیڈرز کو یونیورسٹی کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔کیونکہ ان میں سے زیادہ تر طالب علموں کا تعلق مکران میڈیکل کالج سے تھا جنہوں نے چند عرصہ پہلے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے مین گیٹ کو تالا لگایا تھا۔کہ جس کی پاداش میں یونیورسٹی نے اپنے کیمپس کے اندر ان کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔ترجمان نے یونیورسٹی انتظامیہ پر لگائے گئے تمام الزامات کومسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ یونیورسٹی آف تربت مکران میں اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ ہے،بطور ادارہ ہر قسم کی علمی،ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہے گی۔جس کی واضع مثال گزشتہ دو مہینوں کے دوران مبارک قاضی کی یاد میں دو ادبی پروگراموں کی ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر اور انگلش ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے منعقد کئے گئے ہیں۔جامعہ تربت کیلئے پروفیسر منظور بلوچ سمیت تمام پروفیسرز،اساتذہ کرام،دانشور،ادیب اور شاعر قابل احترام ہیں۔یونیورسٹی ان کے علمی،تعلیمی،ادبی تحقیقی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اور ان کے علم اور تجربے سے ہمہ وقت استفادہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔یونیورسٹی آف تربت جو بلوچستان کی دوسری بڑی جنرل یونیورسٹی ہے جس نے بلوچستان کے انتہائی پسماندہ علاقہ مکران ڈویڑن کے صدر مقام تربت میں اپنے سفرکا آغاز بطور سب کیمپس بلوچستان یونیورسٹی 2009میں کیا تھا۔جسے 2012 میں ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔جس نے انتہائی قلیل عرصہ یعنی چودہ سالوں کے اندر مکران کی سماجی،معاشی اور تعلیمی ترقی میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبا وطالبات نے نہ صرف بلوچستان پبلک سروس کمیشن بلکہ وفاقی پبلک سروس کمیشن اور دوسرے اداروں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنے ادارے کا نام روشن کردیا ہے۔اچھی شہرت اور مثالی کارکردگی کی وجہ سے ہر جگہ مثالیں دی جاتی تھیں۔اس کے اساتذہ اور انتظامی آفیسران سوسائٹی میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے لیکن گزشتہ چند عرصے سے اس یونیورسٹی کو کسی کی نظر بد لگ گئی ہے۔اس کی تعلیمی،تحقیقی ترقی کا سفر آگے بڑھنے کی بجائے ترقی معکوس کی جانب جاری ہے۔آئے روز کے واقعات نے اس کی نیک نامی،ساکھ اور شہرت کو کافی گزند پہنچا یا ہے۔اب یہ ہرروز میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ان وجوہات کی بنا پر نہ صرف سوسائٹی میں بلکہ یونیورسٹی کے اپنے ملازمین اور اساتذہ میں ایک بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے جوکہ بلا سبب نہیں ہے کیونکہ انہیں خارجی اور داخلی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں اساتذہ اور ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی ایک اہم مسئلہ کی شکل میں سامنے آرہا ہے جبکہ دوسری طرف ان کی تنخواہوں سے (80÷)اسی فیصد ہارڈ شپ کو منجمد کردیا گیا ہے۔ملازمین کیلئے جو میڈیکل پالیسی بنائی گئی ہے اس میں نہ ان کے بوڑھے والدین کو شامل کیا گیا ہے اور نہ اوپی ڈی اور ٹیسٹ کو۔ملازمین کے پروموشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔چند ملازمین عدالت تک پہنچ چکے ہیں۔جبکہ دوسری جانب کوئٹہ میں بیٹھی ہوئی بیوروکریسی ویسے ہی بلوچستان کے جامعات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے وہ جامعات کو مالی اور انتظامی طور پر کمزور کرنا چا ہتے ہیں اور پروفیسروں کو اپنا مطیع بنانے کا خواہاں ہیں جبکہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات اور پالیسیوں سے انہیں جامعات ،ان کے اساتذہ اور ملازمین پر معاشی وار کرنے کا ایک اور بھرپور موقع ملے گا۔چونکہ یونیورسٹی آف تربت ایک قومی ادارہ ہے اسے بچانے ،اس کی ساکھ کو بحال کرنے اور اسے ترقی کی جانب گامزن کرنے کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے۔اس کے نام پرپروپیگنڈہ کرنے کی بجائے اس کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔اس وقت یونیورسٹی مالی اور انتظامی حوالے سے جن مسائل کا شکار ہے ان کا ٹھوس حل ڈھونڈنا ہوگا۔اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی منیجمنٹ اور انتظامیہ کو بھی اپنی چند پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔اپنے اللّے تللّے بند کرنے ہونگے۔گزشتہ چند عرصے سے مین گیٹ کو جس طرح ایک تماشا بنایا گیا ہے اس کے لئے ایک مربوط مکینزم اور طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔یونیورسٹی میں غیرنصابی سرگرمیوں،اسٹڈی سرکلز،بک ریویو،علمی مکالمے ،سیمینار،بک اسٹالز،ایڈمیشن سیل قائم کرنے پر بندش کا کوئی جواز نہیں۔انہیں کسی بھی صورت جسٹی فائی نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ جامعات تو تحقیق،تخلیق،تنقیدی فکر،علمی مکالمے اور نئے افکار وخیالات کو جنم دینے کے بنیادی مراکز ہوتے ہیں۔علم اور تخلیق کے سرچشمے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔جبکہ سیاست،سماجی سائنس،اور انسانی علم کا نام ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر سماجی تبدیلی کے فکر اور علم سے جامعات کو نقصان پہنچتا ہیتو پھر کیوں جامعات نے سیاسیات کے شعبے اور سوشل سائنسز کے فیکلٹیز قائم کئے ہیں۔؟یونورسٹی آف تربت کی اس وقت سب سے بڑی فیکلٹی سوشل سائنسز اور زبان و ادب کی ہے جبکہ آئی آر اور ہسٹری کے نئے شعبے بھی کھولنے کی تیاری کی جارہی ہے،اس سے یونیورسٹی اپنی ہی پالیسیوں کی نفی کررہی ہے۔یہ سماجی علوم ہیں جو ذہنی و فکری تبدیلیوں کے باعث بنتی ہیں جب تک ذہنی و فکری تبدیلی نہیں آتی تب تک سائنس،کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔کیونکہ اسے استعمال کرنے کے لئے ایک ذہن وفکر کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔یورپ نے پہلے سماجی علوم کی آبیاری کی۔تنقیدی فکر اور فلسفیانہ افکارو خیالات کوجنم دیا جس کی واضع مثال نشا? ثانیہ Renaissanceکی ہیجس نے پورے یورپ میں ایک ذہنی و فکری انقلاب برپا کرکیبعد میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیلئے میدان ہموارکردیا۔یہ ایک سماجی ارتقائی عمل ہے،فطری اور سماجی ارتقائی عمل کو کسی فردی خواہشات کے تابع نہیں کیا جاسکتا۔یونیورسٹی آف تربت سمیت بلوچستان میں جتنے بھی تعلیمی ادارے قائم ہیں یہ سب سیاست اور سماجی تبدیلی کے عمل اور فکر کی مرہون منت ہیں۔یہ کسی سائنسدان کے کارنامے نہیں ہیں بلکہ یہ سیاست دانوں کے ہی بنائے ہوئے یادگاریں ہیں۔بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی ،پہلا میڈیکل کالج،بلوچستان بورڈ و دیگر ،یہ سب بلوچ قوم پرستانہ سیاست ،جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی بدولت قائم ہوئی ہیں۔یہ سیاست اور سماجی تبدیلی کے عمل میں شریک ان لوگوں کے کارنامے ہیں جو اس پسماندہ سماج کے ہیروز ہیں۔ان کی طرز فکر،نظریہ اور سیاست سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے،انسانی تاریخ یہی کہتی ہے کہ سماجی سائنس اور تبدیلی کے عمل کو روکنا ممکن نہیں۔لہذا اس الجھن میں پڑنے کی بجائے یونیورسٹی کے اندرونی معاملات پر توجہ دینا چاہئے تاکہ آئندہ کسی اور منظور بلوچ کے ساتھ اس طرح کا کوئی اور ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے جس سے ہماری آنکھیں شرم سے جھک جائیں۔پے درپے واقعات (ایڈمیشن ڈیسک،بک فیئر)کے بعد ڈاکٹر منظور بلوچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے تو سب کو ہلا کر رکھ دیا۔بولنے کیلئے الفاظ ہیں اور نہ زبان۔۔۔ہم نہ صرف ڈاکٹر منظور بلوچ کے سامنے شرمندہ ہیں بلکہ اپنی بلوچی اور اکیڈمک تاریخ کے سامنے بھی اس کے جوابدہ ہیں۔شاید ڈاکٹر منظور بلوچ ہماری اس غفلت کو درگزر کردے لیکن کیا تاریخ ہماری درخواست کو قبولیت بخشے گی اور ہمیں معاف کرے گی۔؟

اپنا تبصرہ بھیجیں