مائنس ون نہیں مائنڈ سیٹ

راحت ملک
بلوچستان کے صوبائی بجٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبے میں کرونا وباء کے ٹیسٹ کرنے کی روزانہ استعداد1500کردی گئی ہے اگر اتوار کی تعطیل کو منہا کر کے حساب لگائیں تو ماہوار 36 ہزار ٹیسٹ بنتے اور اسطرح گزشتہ تین ماہ میں کم وبیش ایک لاکھ 8 ہزار کرونا ٹیسٹ کئے جائے یقینی ہیں اتنی بڑی تعداد میں اگر ٹیسٹ ہوئے ہیں اور 16 فیصد مثبت نتائج کا قیاس کیا جائے تو اس وقت صوبے میں مثبت کرونا مریضوں کی تعداد17280 کے لگ بھگ بنتی ہے 16فیصد کے تناسب سے۔سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے مثبت کرونا مریضوں کا علاج کہاں ہوا ہے؟ کیا وہ صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے اور صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو جاچکے ہیں؟ایسا ہے تو صوبے میں پلازما کے لئے مقعول تعداد میں افراد کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا ممکن العمل ہے اور اگر مثبت ٹیسٹ کے مریض ٹیسٹ کرانے کے بعد اپنے اپنے گھروں میں ہی زیر علاج رہے تو کیا حکومت اور محکمہ صحت کے پاس ان کی بیماری وصحتیابی بارے درست اعداد وشمار موجود ہیں؟ یہ سوال صوبے میں بڑھتی ہوئی انسانی ہلاکتوں کی افسوسناک خبروں کے تناظر میں بہت اہمیت رکھا ہے علاوہ ازیں گزشتہ ہفتہ عشرہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں کرونا وباء کے مریضوں کی تعداد میں کمی آنے کا تاثر ابھارا جارہا ہی تاکہ حکومت کے نام ونہاد اسمارٹ لاک ڈاؤن کی کامیابی نمایاں ہوسکے حالانکہ باخبر اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ کرونا کے ٹیسٹوں کی تعداد کم کردی جاے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی پیروی میں کہ جناب عمران خان اور ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پہلے سے ہی موجود ہے پاکستان میں اسی پالیسی کو اپنایا گیا تھا جس کا اظہار ٹرمپ نے کیا تھا۔ کیا ” کرونا اس لئے بڑھ رہا ہے کیونکہ ٹیسٹ زیادہ تعداد کئے جارہے ہیں اگر ٹیسٹوں کی تعداد کم کردی جائے تو مریضوں کی تعداد بھی کم ہوجائے گی”
میری معلومات کے مطابق بلوچستان میں روزانہ 1500کرونا ٹیسٹ نہ کبھی ہوئے ہیں اور نہ ہی اب ہورہے ہیں۔دو جولائی کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں کرونا سے جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 122ہوگئی ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد10666ہے۔ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ بدھ (یکم جولائی)کو 439افراد کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں 58میں کرونا کی تصدیق ہوئی۔۔یہ بیانب ذات خود بجٹ تقریر کے دعویٰ کی نفی کرتا ہے۔۔۔انہوں نے حقائق وضح کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک50133افراد کے ٹیسٹ ہوئے 39487کی منفی رپورٹ آئی جبکہ5073مریض صحتیاب ہوئے ہیں یہ کرونا وباء پھیلنے سے اب تک کے سرکاری اعداد وشمار ہیں جوبجٹ میں بتائی گئی ٹیسٹینگ استعداد یعنی 1500روزانہ کی مکمل نفی کرتے ہیں۔
کیا مسائل کو قالین کے نیچے چھپانے سے وہ حل ہوجائیں گے؟ کیا حقائق مسخ کرنے کا نتیجہ عوامی رویے میں لاپرواہی وغفلت بڑھنے کی صورت نہیں نکلے گا؟ نامعلوم مگر کرونا وباء میں مبتلا لاتعداد افراد اپنی لاعلمی اور غفلت سے اپنے عزیز واقارب احباب اور دیگر میں کرونا وباء منتقل کرتے چلے جائیں گے کیا اس طرح کرونا پر قابو پانا ممکن ہوگا؟ اور صرف حکومت کی بے تمر بصیرت افروزی کے جعلی تاثر کو ابھارنے کے لئے انسانی جانوں سے کھیلنا اور انہیں خطرناک وباء میں مبتلا کرنا انسانیت دشمنی نہیں؟
کاسی قبرستان کوئٹہ کے آس پاس آباد افراد بتاتے ہیں کہ کرونا وباء کی آمد کے بعد بالخصوص اسمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی کے بعد اس قبرستان میں مرحومین کی تدفین کی تعداد معمول کے مقابلے میں تین چار گنا بڑھ چکی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مارچ 2020 کے آغاز سے 15مئی تک ملک بھر میں کرونا کے مریضوں کی تعداد39000تھی جو 16 مئی سے 2جولائی یعنی 47دنوں مین 2لاکھ بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے یہ اعداد وشمار ثابت کرتے ہیں کہ کرونا وباء پر قابو پانے کے لئے حکومتی اقدامات غیر موثر اور بے کار ثابت ہوئے ہیں۔اگر موجودہ پالیسی جاری رہی تو خدشہ ہے کہ پولیو کی طرح کرونا وباء پر قابو نہ پاسکنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا شمار ہوسکتا ہے لہذا دریں حالات اس پالیسی اور پالیسی سازوں کی تبدیلی تو ناگزیر ہے اس کا طریقہ آئین میں درج ہے اس پر عمل کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے مخصوص حلقے کو اپنی سوچ اور طرز عمل بدلنا ہوگا۔
یہ سوچنا، پسند کرنا اور اہتمام کرنا چھوڑ دیجئے کہ جمہوریت بھی ویسی ہونی چاہیے جس طرح آپ چاہتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ وطیرہ اپنائے کہ جموریت کو آئینی راستوں پر آزادنہ چلنے کا موقع ملنا چاہیے تا کہمنتخب شدہ جمہوری ادارے اسی طرح عمل پیرا ہوں جیسی جمہوری اصولی ساخت اور دستور پاکستان کی منشاء وتقاضا ہے۔اس آمادگی اورزہنی قبولیت کو اپنایا جائے تو یقیناً ہم سب پاکستانی اپنے ملک میں آسودہ ومطمئن طور پر زندگی گزار سکتے ہیں ساتھ چل سکتے ہیں۔مصنوعی جمہوری تماشے کا ناگزیر حاصل عوام۔ یعنی شہری اور ریاست کے درمیان اس باہمی تعلق کی شکست و ریختگی اور عدم اطمینان وبیگانگی کی شکل میں سامنے آیا ہے جس میں دشمن قوتوں کو اپنے عزائم پورے کر نے کے لئے ماحولیاتی گنجائش اور جگہ مل گئی ہے۔ملک دشمن قوتوں کے عزائم ملیامیٹ کرنے کا تیر بہدف نسخہ ریاست اور شہریوں کے درمیان طے پائے رشتے جسے طاقت کی دیمک چاٹ رہی ہے اسے بحال کرنے میں مضمر ہے اور اس کے لئے مزید سوچ وبچار یا طریقہ کار طے کرنے کی بھی ضرورت نہیں بس دستور پاکستان جس کی اطاعت کا حلف ہر منصبدار اٹھاتا ہے اس پر اخلاص صدق دل سے عمل پیرائی پر گامزن ہونا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران مائنس ون کے امکان کا خدشہ ظاہر کیا ہے یا اشارہ دیا اگر کہیں کسی طاقت کے مرکز میں اس پر غور ہورہا ہے تو اَزراہ کرم ایسے فرسودہ نسخے پر وقت برباد نہ کیا جائے مداخلت کا یہ تسلسل سائل کو گھمبیر تو بنا سکتا ہے مگر حل نہیں کرے گا اس وقت ملک میں حکومتی نااہلی کا جو بحران ہے اس میں بلا شک حکمران افراد کی قابلیت وتجربہ کا فقدان بھی نمایاں ہے تاہم حقیقی طور پر عدم استحکام کا اصل سبب، اقتدار واختیار میں پیداکی گئی وہ دوئی ہے جسے ختم کئے بنا ملک میں سیاسی معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ بلکہ اس دوئی وتقسیم کی وجہ سے دنیا کے ساتھ پاکستان کے سفارتی معاشی سیاسی تعلقات میں بھی شدیدابہام موجود رہے گا اس کا مشاہدہ مختلف واقعات و امور کے دوران کیا جا چکا ہے۔ اگرملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ملک کی خارجہ پالیسی پر غیرممالک اعتماد کرنے سے قاصر ہیں تو اسکا سبب بھی وہی دوئی یا اختیار و کی تقسیم ہے جو جنرل ضیاء کی مارشل لاء فسطائیت کے بعد زیادہ بھیانک شکل میں پاکستان کے ریاستی آئینی خدوخال کو نکل چکی ہے۔
پیش پاافتادگی سے نکلنااور فی الفور نکلنااشد ضروری ہے۔ مگر تبدیلی کافیصلہ ومنبع آئینی ادارے ہونے چاہئیں۔جناب وزیراعظم اپنی کارکردگی سے جس قدرخود واقف ہیں شائد دوسرا کوئی بھی اس سے کم ترواقف ہو پھرانہیں جب اس بنیاد پر مائنس ہوجانے کا عندیہ بھی مل چکاہے تو مناسب ہوگا کہ وہ خود آئینی رستہ اپنائیں اور خود مستعفی ہوکر قومی اسمبلی کو نیاقائدایوان چننے کاموقع دے دیں۔اگروہ دوبارہ منتخب ہوجائیں تومائنس ون کے آرزو مندوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص یاجماعت اقتدار سنبھالتی ہے تو اتفاق رائے یا جمہوری اکثریت رائے مندرجہ ذیل اصلاحات یا بنیادی اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
الف: نئے قائدایوان کے انتخاب میں کوئی بھی سرکاری ادارہ فرد یا سرکاری ملازم اثرانداز نہ ہوسکے سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی کو خود مختاری کے ساتھ فیصلہ سازی کرنے کا مکمل اختیار و موقع ملے۔
(ب)جونئی حکومت بنے اسے تمام تراختیارات سونپ دئیے جائیں تاکہ اقتدار(حکومت) اور اختیار(ڈیپ سیٹ) کا موجود مخمصہ ختم ہوجائے۔
(ج) نئی حکومت کے مرکزی اہداف و ترجیحات میں کورونا وبا سے نمٹنا ٹڈی دل کاخاتمہ، مہنگائی کے سیلاب کے آگے بندباندھنا امن وامان کاقیام اور نیب کے پیدا کردہ احتساب کے ناروا خوف کا خاتمہ کرنا، الیکشن کمیشن کو مکمل طورپر آزاد خود مختارادارہ بنانے کیلئے آئینی وقانونی تبدیلیاں لانا ہوں الیکشن کمیشن کو انتخابات کے دوران کسی بھی سطح کے سرکاری ملازم کے شخصی ذاتی یا محکمانہ طورپر ملوث ہونے پر تمام مراعات سلب کرکے اسے فوری طورپر عہدے سے برطرف کرنے کااختیار دیاجائے۔
(د) نئی حکومت اقتدارواختیار میں درآئی تقسیم کے تدارک اور خدشات سے پاک بنانے کیلئے عسکری قیادت کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس میں تفصیلی بحث مباحثہ منعقد کرے تاکہ ایک دوسرے کے بارے غلط فہمیاں اور خود فریباں ختم ہوسکیں سیاسی اختلاف رائے یا متبادل سیاسی فکر قرار پارے نہ ملک دشمنی۔
(ڈ) الیکشن کمیشن میں زیرالتوا سیاسی جماعتوں کے تمام مقدمات مختصر مدت میں منطقی انجام تک پہنچائے جائیں اس عرصہ میں نیب کے سربراہ کو خود مستعفی ہوجانے کا مشورہ دیاجائے اور ووٹرلسٹوں میں اندراج و نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے معاملات تیزی سے نمٹانے جائیں تاکہ آغاز مارچ 2021میں عام انتخابات کرا دئیے جائیں نومبر دسمبر 20 میں اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں نگران حکومت قائم ہو جس میں شامل ہونے والے افراد پر اگلے پانچ سال تک کسی قسم کا سیاسی اور ریاستی عہدہ حاصل کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔
مزیدتجاویز بھی مرتب کی جاسکتی ہیں جو سیاسی عدم واستحکام کے خاتمے اور معاشی نمو میں اضافے کے مقاصدکو مکمل کرنے کا وسیلہ بنیں۔ نئی حکومت امن وامان کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سیاسی وانتظامی اقدامات کرئے سیاسی مسائل کے حل کیلئے متعلقہ یا متحارب فریقین کو مذاکرات کے ذریعے مرکزی ملکی سیاسی دھارے میں لائے جبکہ جرائم پیشہ عناصرکی سرکوبی انتظامی وعدالتی ذرائع سے مکمل کرے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیاجائے تو مستحکم پاکستان کی تعبیر ممکن الحصول ہوگی لیکن اس مقصدکی سمت بڑھنے کیلئے مائنس ون کی بجائے چینج دی مائینڈسیٹ کی دانشمندانہ راہ اختیار کرنی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں