سمی اور سیما نام ہیں مستقل جہد کا

تحریر: عندلیب گچکی
جب آپ ہوش سنبھالتے ہیں تو خواہشات ، ارمان ، امیدیں آپ کی دل میں جاگ اٹھتی ہیں ، آپ اپنے لیے دنیا کی بہترین سہولتوں کے طلب گار ہوتے ہیں ، خوبصورت اور رنگ برنگے خواب اپنے دامن میں باندھ لیتے ہیں ، آپ کی ایک منزل ہوتی ہے اور وہ منزل آپ کی امیدوں کی ہوتی ہے. نیز اس منزل تک پہنچے کے لیے آپ ایک خواب دیکھتے ہیں اور اسی خواب کو پورا کرنے کے لیے آپ اپنی زندگی لگا دیتے ہیں۔ اور پھر آپ اپنی منزل کو پاکر مطمئن ہوتے ہیں اور اس منزل تک پہنچنے کے سفر میں جتنی تکالیف اور درد سہہ لیتے ہیں وہ سب آپ بھول جاتے ہیں۔
کسی کی منزل ایک آرٹسٹ بننا ہے ، کسی کو انجینئر بننا ہے اور کسی کی منزل اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوتی ہے۔
لیکن کچھ قومیں دنیا میں اتنی بدقسمت ہوتی ہیں کہ ان کے لیے اِن تمام خوابوں کو دیکھنا، رنگ برنگ کی خواہشات رکھنا اور اپنے لیے خود منزل کا تعین کرنا ایک گناہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ تجھے کب تک زندہ رہنا ہے اور کب مرنا ہے یہ بھی کوئی اور (اللہ کے علاوہ) طے کرتا ہے، آپ کو اپنی زندگی کس طرح جینی ہے یہ سوچنا بھی سنگین غداری شمار ہوتی ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ کیا سوچتے ہیں، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اِس کی کوئی حثیت او وقعت نہیں، وہی ہوتا ہے جو تجھ پر تیرے حاکم وقت چاہتی ہے۔ یعنی آپ اپنے لیے کچھ نہیں رہتے۔
تمام خواہشیں، تمام آسائشیں، تمام خواب ان کے لیے ہوتے ہیں کیونکہ یہ آقا اور غلام کا معاملہ ہوتا ہے۔ وہ تمہارے شب و روز کے معاملات طے کرتا ہے، وہی فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کو کب تک زندہ رہنا ہے اور وہی اختیار رکھتا ہے کہ آپ کو کسی آزاد فضا میں مرنا ہے یا بند دیواروں میں آخری سانسیں گزارنی ہیں۔ آپ کو مرنے کے بعد دیوار پہ چنوا کے مارنا ہے یا کسی ویران یا جھاڑی دار جنگل میں پھینکنا ہے۔
لیکن کچھ غلام بھی بڑے ضدی ہوتے ہیں وہ یہ سب قبول نہیں کرتے، انہیں اپنی زندگی کے ڈور خود کے ہاتھ میں چاہیے ہوتا ہے، جس طرح قدرت نے سب کو آزاد پیدا کیا ہے اسی قانونِ فطرت میں ا±ن کو زندہ رہنے کی چاہ ہوتی ہے، انہیں یہ قبول نہیں ہوتا کہ ان سے ان کی زندگی ان کے جیسے کوئی انسان ہی چھین لے اور جب اس کا جی چاہے ان سے ان کی زندگی چھین کے ان کو کسی ویرانے میں پھینک دے۔ اگر آقا جیسی زندگی نہ سہی لیکن آقا سے اس کے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننے نہیں دیتے اور وہ آخر تک مزاحمت کرتے ہیں۔
سمی ان میں سے ایک ہے ا±س سے بھی اس کا قبلہ زبردستی چھین لیا گیا ہے اس کے تمام خواب اچک لیے گئے ہیں اس کے ارمان، خواہشیں اور وہ بچپن جو والد کے آغوش میں پیار و محبت سے گزرنا تھا غصب کیا گیا ہے۔
فطری زندگی کی تمام لذتیں اور شوخیاں اس کے والد کے ساتھ پابند سلاسل کیے جاچکے ہیں ، وہ گڑیا اور کھلونے جو والد کو دلانے ہوتے ہیں جن سے کھیلتے کھیلتے بچپن کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنانا ہوتا ہے وہ بچپن سڑکوں پہ روتے ہوئے گزرا ہے۔
تعلیم، صحت، مستقبل سب کچھ داﺅ پر لگ گیا ہے نہ کو ئی کیریئر رہا نہ مستقبل۔
اس دور میں جب وومن امپاورمنٹ کی بات ہوتی ہے، اس دور میں جب مختلف تنظیمیں اس پر کام کررہی ہیں کہ عورت کو پڑھانا ہے عورت کو خود کے پاﺅں پر کھڑی کرنا ہے، عورت کو مضبوط بنانا ہے اور اسی مضبوط، خودمختار اور معاشی طور پر آزاد عورت کے ذریعے ایک خوشحال معاشرہ تشکیل دینا ہے لیکن بات جب سمی اور سیما کی آتی ہے یا ان جیسے ہزاروں بلوچ خواتین کی جن کا مستقبل، خودمختاری، تعلیم کا حق سب سلب ہیں تو کس طرح ایک آزاد، خودمختار اور مضبوط معاشرہ تشکیل پاسکے گا ؟ کیا اِن کا حق نہیں کہ ان کو بھی اچھا مستقبل ملے ؟ اور ان کے ذریعے معاشرہ مستحکم ہو ؟
سمی کہتی ہے میرے پاس میرے والد کے وہ آخری دیدار کی یادیں ہیں جب وہ خداحافظ کہنے کے لیے میری طرف دیکھ کے ہاتھ ہلا رہے تھے، یہ کتنی دردناک یاد ہے، ذرا اس کی جگہ ایک منٹ کے لیے خود کو رکھ کر سوچیے، کتنے کرب، اذیت، تکلیف اور درد اِس جملے میں پوشیدہ ہیں، ایک بچی اسی درد کو لےکر جوان ہوتی ہے اور اسی درد کو لے کر روز کسی نہ کسی دروازے پہ دھکے کھا رہی ہوتی ہے اور اس کا صرف اور صرف ایک مطالبہ ہے کہ اس کے والد کو بازیاب کیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ لوگ رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کررہے صرف بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں اور ویسے بھی یہ انسانی حق ہے کہ وہ کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اس کو اپنی فیملی تک رسائی ضرور دی جاتی ہے۔
دوسری طرف وہ بہن سیما ہے، جس کی اپنی گود میں ایک بچی ہے، وہ نومولود بچی بھی اب بڑی ہورہی ہے انہی سڑکوں پہ۔
اس اذیت کو کون سمجھ سکتا ہے؟ وہی جن پہ یہ سب گزرا ہے، ہم اور آپ جس حد تک محسوس کرسکتے ہیں کرتے ہیں لیکن جن پہ گزرا ہے اس حد تک محسوس کرنا ممکن نہیں۔
لیکن یہ دونوں ڈٹی ہوئی ہیں، ہزاروں ایسی بہنیں اور بیٹیاں ہیں جو خاموشی سے سب سہہ رہی ہیں، لیکن ہر کوئی خاموشی سے نہیں سہہ سکتی۔ اللہ نے انسان کو مختلف فطرتوں پہ بنایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی منزل کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن منزل کو کھونے نہیں دیتے اور ان کی منزل اِن کے پیاروں کی بازیابی ہے۔
سمی، سیما، ماہ نور یا ماہ زیب ہزاروں اور بہنیں یا بیٹیاں اپنے مستقل مزاجی کی وجہ سے آج اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں، انہوں نے حاکمِ وقت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے سر اٹھاکر جینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اپنے حق اور انصاف کے حصول کے لیے چٹان کی طرح کھڑی اور ڈٹی ہوئی ہیں۔ سمی اور سیما آج جہد مسلسل کی نشانی بن چکی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں