جالب و سیاسی یادیں
رشید بلوچ
ہماری صحافت کی شروعات روزنامہ انتخاب کے ڈیسک سے ہوئی تھی جہاں روزانہ شام کو سیاسی مخلوق سے خبروں کی اشاعت سے متعلق ”کمی بیشی“ پر نوک جھونک ہوا کر تی تھی،جس دن کسی بھی پارٹی کی پریس ریلیز کی خبر” بیک پیج“ پر چھپ جاتی تھی یا ہمعصر جماعت کی بہ نسبت خبر تین کالم کی بجائے دو کالم میں بدل جا تی تھی یا متوازن سرخی لوئر ہاف میں چلی جاتی تھی تو پھر ہماری شامت آنی پکی تھی ہم سے ایسی” نالائقی“ وقوع پذیر ہونے کی صورت میں یقینی طور پر” متاثرہ“ فریق کا جماعتی لشکر مغرب کی اذان کے بعد بالمشافہ لڑنے جھگڑنے انتخاب کے دفتر پہنچ جاتا،یہ وہ دور تھا جب بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) میر حاصل خان بزنجو کی بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (بی این ڈی پی) کی ملاپ سے موجودہ نیشنل پارٹی نے جنم لیا تھا، جس کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو جنرل سیکرٹری بن گئے تھے،غلام محمد بلوچ بدستور بی این ایم کے ساتھ جھڑے رہے،غلام محمد بلوچ نے جناح روڈ کے پاک لینڈ ہوٹل میں ڈاکٹر مالک بلوچ کو نیشنل پارٹی میں شامل نہ ہونے کا حتمی فیصلہ سنا دیا تھاجس کے بعد غلام محمد کو ساتھ ملانے کی خواہش دم توڑ گئی تھی،دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی اور ریڈیکل گروپ حق خودارادیت کی اصطلاح پر مکالمہ بازی جاری رکھے ہوئے تھے،بلوچستان کے دیگر اخبارات بلعموم اور انتخاب بلخصوص بیان بازیوں کا محور و مرکز ہوا کرتا تھا،یہی وجہ تھی کہ سیا سی مخلوق کے تند و تیز جملوں،سخت لب ولہجے کا ہم روزانہ سامنا کرتے تھے،آہستہ آہستہ ہم ایسے رویوں کے عادی بن گئے تھے،رات گئے فائنل کاپی پریس مشین بجھوانے سے قبل ہم سمجھ سکتے تھے کل مغرب کے بعد کونسی جماعت کا کونسا فرد انتخاب کا لپٹا ہوا پیپر نیوز ڈیسک پر پٹخ کر بھڑاس نکالنے والا ہے،سو ہم پہلے سے دفاعی”جواز“ گڑھنے کی تیاری کر چکے ہوتے، ان دنوں میں حبیب جالب سے شنائی سائی ہوئی اور بعدمیں جان پہچان تعلقات میں بدل گئے، لیکن نادانستہ اخبار کی شہ سرخیاں ہمیشہ اچھے تعلقات کے سامنے رخنہ ڈالتی رہیں عموماً ہفتے میں چار،پانچ دن ناراضگی میں گزر جاتے
ایک دن شام کو نیوز روم کا دروازہ زور سے پٹخا ڈیسک پر بیٹھے ساتھی یک دم چونک گئے سامنے دیکھا تو حبیب جالب اپنے 8.10ساتھیوں کے ہمرا دروازے پر کھڑے ہیں،غصہ ایسا کہ ہمیں صرف انکے لب ہلتے نظر آرہے تھے لیکن ادا ہونے والے الفاظ کی سمجھ نہیں آرہی تھی،پورے دفتر میں جالب کی آواز گھونج رہی تھی لیکن مجال ہے ایک لفظ ہمارے پلے پڑے، حبیب جالب کو اس سے قبل بھی ہم نے ایسے معاملات میں غصہ کرتے دیکھا تھا لیکن آج معاملہ کچھ زیادہ ”سنگین“ لگ رہا تھا ا یسے میں ہمارا ایک ساتھی کرسی سے اٹھا انہیں شانت کرنیکی کوشش میں مصروف ہوگئے،چند لمحے بعد غصہ زرا دھیرے پڑ گیا تو آگے بڑھے نیوزڈیسک پر آج کا اخبار زور سے دے مارا، کہنے لگے۔۔ تم لوگ ہمارے پالیسی بیان یکسر نظر انداز کیسے کر سکتے ہو؟ تمام اخبارات میں ہمارابیان چھپ گیا ہے لیکن تم لوگ اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے،تم لوگ بی این پی مخالف ایجنڈے پر کارفرما ہو۔وغیر ہ وغیرہ،۔۔ تب تک ہم سب ساکت بیٹھے ایک دوسرے کا منہ تھک رہے تھے، یکدم سے ہمارے ایک ساتھی نے جالب کالپٹا ہوا اخبار سیدھا کرکے فرنٹ پیج کھول کرحبیب جالب کو براہوئی میں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ چیئرمین۔۔!آپ اس بیان کی بات کر رہے ہیں؟ حبیب جالب جس بیان پر ہماری”بدنیتی“ کے پرخچے اڑا رہا تھا وہ تو اخبار کی پیشانی سے زرا نیچے تین کالم میں چھپا ہوا تھا۔پھر کیا تھا۔۔! گرمی کا ماحول یکسر یخ بستہ ماحول میں بدل گیا، چائے شائے پیتے جالب کہنے لگا۔۔یار میں ابھی خضدار سے آرہا ہوں رستے میں اخبار پڑھنے کو نہیں ملا،پارٹی دفتر پہنچا تو انچارج نے کہا ”انتخاب“ میں بیان نہیں چھپا میں بھی تاؤ میں آگیااور چلا آیا۔۔۔وہ خوشگوار ماحول میں چلے گئے لیکن اسکے بعد بھی ایسے معاملات پیش آتے رہے اور ہماری،نرم،گرم، نوک جھونک ہوتی رہی تا آنکہ ہم نے 2009کو ”انتخاب“سے وداع لی اور جالب نے ایک سال بعد دنیا چھوڑ دی،
اس دور میں بی این پی کے دو لوگ بڑے متحرک ہوتے تھے ان میں ایک حبیب جالب،دوسرا ثنا بلوچ،دونوں کے پاس اہم زمہ داریاں تھیں، ثنا بلوچ کو سردار عطا ء اللہ مینگل کی ترجمانی کی زمہ داری سونپ دی گئی تھی اور حبیب جالب پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر زمہ داریاں نبھا رہے تھے،حبیب جالب کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اس نسل سے تھا جس میں نظریات کو اہمیت دی جا تی تھی جس میں مکالمے کیلئے پڑھنے لکھنے کو ضروری سمجھا جاتا تھا،جس میں پارٹی وابستگی،پارٹی سے وفاداری حرف آخر جانا جاتا تھا،جالب نے اپنے سیا سی سفر میں نشیب و فراز کا سامنا کیا،جلاوطن ہوئے لیکن سخت حالات میں بھی پارٹی وابستگی سے دست کش نہ ہوئے، 2006کے بعد بی این پی کو بڑے کٹھن حالات کا سامنا رہاسردار ختر مینگل اپنے بعض فیصلوں کی بابت جیل میں تھے،پارٹی کے تمام معاملات حبیب جالب کے سپردتھے، جالب نامساعد حالات میں پارٹی اور نظریہ کے ساتھ کمٹڈ رہے جب انہیں مار دیا گیا تب بھی پارٹی کا جھنڈا انکے ہاتھوں میں تھا،بقول ایک دوست حبیب جالب اپنے آخری دنوں میں دل کے عارضے میں مبتلا تھے علاج کیلئے انہیں کسی کم خرچ ہسپتال اور ڈاکٹر کی تلاش تھی،مجھ سے مشورہ لینے آیا تھا،میں نے کراچی کے کسی سستے ہسپتال جانے کی صلاح دی،کہنے لگے پارٹی مصروفیات سے وقت نکال کر ساتھ چلیں گے،میں نے حامی بھر لی اسکے بعد ہسپتال جانے کی نوبت تب آئی جب 14جولائی2010کے دن حبیب جالب کے سفر نامے کا انت اسکے موت سے ہوا۔