شب خون
انورساجدی
مخالفین کا الزام ہے کہ حکومت نے شب خون مارا،ایک ہی رات میں آزاد عدلیہ کا تصور مٹا دیا ایسی دھونس دھاندلی سے کام لیا کہ اس کی مثال اس سے قبل1989میں محترمہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کے دوران بھیڑ بکریوں کی طرح اراکین کی خرید وفروخت کے علاوہ موجود نہیں ایک اور مثال2022 کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت معزز ممبر صاحبان کی خرید وفروخت ہے۔مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ 26ویں ترمیم کی منظوری میں حکومت کا کمال آدھا ہے باقی کام ان لوگوں نے کیا جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔دباﺅ اتنا تھا کہ بی این پی مینگل کی خاتون سینیٹر نسیمہ احسان اور محمد قاسم رونجھو نے پارٹی فیصلہ کے برخلاف حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔ بعض اسے ملی بھگت اور نورا کشتی بھی کہتے ہیں۔دونوں کی مجبوریاں بہت زیادہ تھیں قاسم رونجھو ڈائیلسسز پر ہے جسمانی طور پر کمزور ہے۔ساتھ میں ایمان بھی ڈگمگایا۔ سید احسان شاہ بھی بے روزگار ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا شکار ہیں۔اختر مینگل کو چاہیے کہ ان کے خلاف کارروائی نہ کریں اور یہ سبق سیکھیں کہ اگر پارلیمانی سیاست کرنی ہے تو بڑے دل جگر والے لوگ پارلیمنٹ میں بھیجیں۔بی بی نسیمہ تو بی این پی میں تھی ہی نہیں۔آج شامل ہوئی اگلے دن سینیٹر بن گئی۔قاسم رونجھو کاروباری شخصیت ہیں وہ بہت زیادہ دباﺅبرداشت نہیں کرسکتے لہٰذا سردار صاحب ذمہ داری خود قبول کریں اور اپنے اراکین کو بخش دیں۔ووٹنگ کے دوران سب سے الگ سب سے منفرد اور جانی واکر نظر آئے تو وہ باچا خان کے عظیم ورثہ کے وارث ایمل ولی خان تھے۔بابڑہ کے قتل عام کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم نے اس کے بعدکوئی9مئی نہیں کیا۔فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کئے انہوں نے نہ صرف پی ٹی آئی کے لئے ملٹری ٹرائل کا مطالبہ کیا بلکہ جو اور لوگ ملکی تنصیبات پر حملہ کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔ اپنے بیان میں خود کو ایک عظیم محب وطن ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ظاہر ہے کہ انہیں بلوچستان کے کوٹہ پر سینیٹ میں لائے ہیں تو ان سے داد وصول کرنا تو بنتا ہے۔افسوس ہوتا ہے کہ باچا خان جو کہ گاندھی کے بعد نہ صرف برصغیر بلکہ افغانستان کی عظیم ترین شخصیت تھے ان کی وراثت کس قدر گہری کھائی میںگر گئی ہے۔ایمل ولی اس کی عملی تفسیر ہے۔ایک ڈرامہ ملتان کے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادہ زین قریشی نے بھی رچایا وکیل نعیم بخاری کے بقول انہوں نے اپنے والد کے نام کو بیچا۔
اور اراکین نے کیا کیا گل کھلائے وہ تفصیلات کچھ عرصہ کے بعد ہی منظر عام پر آئیں گی۔فی الحال حقیقت یہی ہے کہ حکومتی اتحاد26 ویں ترمیم منظور کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔اگر آدھا کریڈٹ مولانا کو دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔بلاول اور شہبازشریف تو ویسے ہی اچھل کود کر رہے تھے اصل پلان مولانا کے پاس تھااور انہی کے ذمہ لگایا گیا تھا کہ ترمیم کی منظوری لینی ہے۔مولانا اس کمال خوبی سے کھیلے کہ اپوزیشن بھی واہ واہ کر رہی ہے اور حکومت بھی سرتاپا مرہون منت ہے۔مولانا جو فروری کے انتخابات میں قابل قبول نہیں تھے اک دم سے پسندیدہ شخصیت بن گئے ہیں اس کا صلہ بالآخر انہیں وسط مدتی انتخابات کے نتیجے میں مل سکتا ہے۔بلوچستان کی صورت میں مل سکتا ہے اور اگلے انتخابات میں ایک بڑے پارنر کی صورت میں بھی مل سکتا ہے۔مولانا نے یہ کہہ کر اپوزیشن کو مطمئن کیا ہے کہ انہوں نے کالے ناگ کے دانت نکال دئیے تھے اب وہ کسی کو کاٹ نہیں سکتا۔مولانا بھول گئے ہیں کہ دیومالائی کہانیوں کے مطابق جو بھی مخلوق سو سال کا ہو جائے اس کے دانت دوبارہ نکل آتے ہیں اور وہ شیش ناگ بن جاتا ہے۔یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ممکن ہے اگر مولانا عمران خان کو بہلا پھسلا کر آئینی ترامیم کے پراسس میں شامل کروا سکتے ہیں تو یہاں کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔26 ویں ترمیم کی باریکیاں جزئیات اچھائی یا برائیاں تو ماہرین قانون بتا سکتے ہیں لیکن یہ جو حکومت نے اتنا زور لگایا یقیناً یہ خالی از اسرار نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں دال میں کچھ کالا ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔حکومتی اکابرین کے مطابق انہوں نے جوڈیشل ایکٹوازم کا خاتمہ کر دیا ہے جج صاحبان کے سوموٹو ایکشن کی پاور ختم کر دی ہے۔یعنی عدلیہ کے پر کاٹ دئیے ہیں۔ یہ وہ پاور تھی کہ افتخارمحمد چوہدری نے اس کے ذریعے حکومت چلائی۔ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا نوازشریف کے تمام مقدمات کو یک جا کر کے انہیں بری کر دیا ان کے بعد ثاقب نثار بھی نے عمران خان کا دست و بازو بن کر اپنے عہدہ کے برعکس کارروائیاں کیں حتیٰ کہ وہ ایکسائز افسر بن کر مخالفین کے ہاں سے شراب بھی برآمد کرنے لگے۔ثاقب نثار چیف جسٹس کم اور سیاسی ورکر زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کچھ زیادہ ددرخشاں نہیں ہے۔جسٹس منیر سے لے کر ثاقب نثار تک عدلیہ نے بیشتر اوقات نظریہ ضرورت کے تحت کام کیا ہے۔پے درپے غلط فیصلے دئیے۔ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے مارشلاﺅں کو جا ئز قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کا براہ راست ٹرائل کیا اور موت کی سزا سنائی۔ایک ہی کیس میں نوازشریف کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ بے نظیر کی برطرفی کو سچ ثابت کیا۔انہی چیزوں کو دیکھ کر بے نظیر نے نوازشریف کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے لیکن افسوس کہ بے نظیر کے قتل کے بعد میاں صاحب نے زندگی میں پہلی مرتبہ کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور زرداری کے خلاف میمو گیٹ اسکینڈل کے مدعی بن گئے۔کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے جنرل کیانی نے میاں صاحب پر زور دیا تھا چنانچہ آج جب بلاول بھٹو زرداری میثاق جمہوریت پر زور دے رہے ہیں تو وہ بھول گئے کہ میثاق جمہوریت کو کس نے توڑا تھا اور سیاست میں مقتدرہ کو مداخلت کی ازسرنو دعوت کس نے دی تھی۔بلاول تو ترامیم کے حق میں سیاسی رہنماﺅں کو قائل کر کے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں اور غالباً ان کی خواہش ہے کہ وہ وزیراعظم بن جائیں۔ٹھیک ہے بن جائیں کوئی حرج نہیں لیکن وزیراعظم بن کر وہ کیا کریں گے سندھ16 سال سے پیپلزپارٹی کے پاس ہے وہ یہاں پر کیا تبدیلی لے کر آئے ہیں۔سندھ میں اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی حقوق کا یہ حال ہے کہ پولیس آئے دن مظاہرین پر ٹوٹ پڑتی ہے۔چند روز قبل رواداری مارچ کے دوران خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا تھا دو روز قبل بلوچ یکجہتی کی خواتین مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا گیا۔بلاول بہت بڑی خوش فہمی کا شکار ہیں اگر طاقت کے عناصر نے ان کے نانا جیسے حکمران کو تسلیم نہیں کیا تو انہیں کیسے تسلیم کیا جائے گا۔اگر وہ بے اختیار وزیراعظم بن بھی جائیں تو اس کا کیا فائدہ آزاد عدلیہ کے جبڑے توڑ کر بلاول نے کس کو فائدہ پہنچایا ہے۔یہ خود بھی انہیں معلوم نہیں جب آئندہ چل کر وہ وقت آئے گا کہ ایک تابع فرمان عدلیہ خود بلاول کے خلاف ایکشن میں آئے گی کیونکہ جو طریقہ کار طے کیا گیا ہے آئندہ آنے والے جج صاحبان ہمیشہ حکومت کی منشا سے ہی آئیںگے۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ نوازشریف نے اینٹی ٹیررسٹ کورٹ بنائے تھے۔ تاکہ مخالفین کو جلد سزا سنائی جا سکے۔لیکن انہی عدالتوں کے ذریعے خود نوازشریف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ہمیں تو پتہ نہیں لیکن آئینی ماہر علی ظفر کا کہنا ہے کہ آزاد عدلیہ کو بلڈوز کر دیا گیا ہے۔برادرم علی کرد کا کہنا ہے کہ آزاد عدلیہ کو حکومت کا ذیلی ادارہ بنا دیا گیا ہے۔اگر پارلیمنٹ کے اراکین اپنی قیادت کی بات نہیں مانتے تو 12رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کس سے پوچھ کرکرے گی۔
ایک عجیب وطیرہ دیکھنے میں آیا کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی طویل تقریر کے بعد خواجہ سیالکوٹیا نے آکر انہیں دادا کے طعنے دئیے۔یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ضیاءالحق نے1973 کا آئین معطل کر دیا تھا لیکن آئین کی بحالی کی ترامیم میں ان کے فرزند ضیاءالحق نے ساتھ دیا۔
بے شک ایمل ولی کی یہ بات سچ ہے کہ باچا خان سوسال پہلے کے لیڈر تھے آج لیڈر ہم لوگ ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہزار بار دوبارہ جنم لیں تو بھی باچا خان نہیں بن سکتے۔بہرحال اس ریاست میں جمہوریت پہلے سے کنٹرول میں تھی اب عدلیہ کو بھی زیر کرلیا گیا ہے۔مقننہ کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے پھر دوبارہ ربڑ اسٹیمپ بنا دیا جاتا ہے۔1973 کے آئین کا حلیہ بگڑ گیا ہے لہٰذا اس ریاست میں جمہوریت آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کوسوں دور ہے۔ایک گماشتہ جعلی اشرافیہ نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور اس کی مہار بھی کہیں اور ہے۔انہی حالات میں عوام کو زندہ رہنا ہوگا یا زندہ درگور ہونا ہوگا۔باقی اللہ اللہ خیر صلا۔