بلوچستان کابینہ کی تشکیل کا معاملہ حل، 14اراکین نے حلف اٹھا لیا

کوئٹہ(انتخاب نیوز)بلوچستان کابینہ کی تقریب حلف برداری منعقد ہوئی جس میں 14اراکین نے حلف اٹھا لیا، تفصیلات کے مطابق حلف اٹھانے والوں میں میر شعیب نوشیروانی ، نوابزادہ طارق مگسی ، ضیا لانگو ، صادق عمرانی ، عبدالرحمن کھیتران ، سیلم کھوسہ، راحیلہ درانی، علی مدد جتک ، فیصل جمالی، ظہور بلیدی ، سردار ڈومکی ، نور محمد دمڑ، عاصم کرد گیلو اور بخت محمدکاکڑ نے وزارت کا حلف اٹھا لیا، تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے بخت کاکڑ کے علاوہ بلوچستان کی 14 رکنی کابینہ میں کوئی نیا رکن اسمبلی شامل نہیں ، ماضی میں کئی بار وزرا ءرہنے والے اراکین اسمبلی کو ایک بار پھر وزیر بنادیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے 2 وزررا جبکہ اے این پی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کو کابینہ میں وزارت نہیں ملی۔ مزید تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں عام انتخابات کے 70 دن اور وزیراعلی سرفراز بگٹی کے حلف اٹھانے کے 48 دنوں بعد بالآخر صوبائی کابینہ بن گئی۔ 14 وزرا نے حلف اٹھا لیا۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے چھ چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان اسمبلی کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔حلف برداری کی تقریب جمعے کو گورنر ہاس کوئٹہ میں منعقد پوئی جس میں گورنر عبدالولی کاکڑ نے وزرا سے حلف لیا۔حلف اٹھانے والوں میں پیپلز پارٹی کے صادق عمرانی، علی مدد جتک، ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ ، فیصل جمالی، سرفراز ڈومکی، ن لیگ کے عاصم کرد گیلو، سردار عبدالرحمان کھیتران، سلیم حمد کھوسہ، شعیب احمد نوشیروانی ،نور محمد دمڑ اور راحیلہ حمید درانی شامل ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے ضیا اللہ لانگو اور طارق حسین مگسی نے بھی حلف اٹھایا۔وزرا کے قلمدانوں کا اب تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کابینہ میں صرف دو نئے چہرے فیصل جمالی اور بخت محمد شامل ہیں- باقی تمام وزرا اس سے پچھلی حکومتوں میں بھی وزیر رہ چکے ہیں۔اٹھاریں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان میں کابینہ کا حجم 14 وزرا اور پانچ مشیروں سے زائد نہیں ہو سکتا۔مخلوط حکومت کی حمایت کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کا کوئی رکن کابینہ میں شامل نہیں، اے این پی کو مشیر کا عہدہ دیے جانے کا امکان ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی بلوچستان اسمبلی کے قائد ایوان کے طور پر سرفراز بگٹی نے 2 مارچ کو حلف اٹھایا تھا۔اس کے بعد سے اختلافات کے سبب کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی خبریں سامنے آتی رہیں۔وزیراعلی بلوچستان اور صوبائی حکومت کے ترجمان صدارتی اور سینیٹ انتخابات کو کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے جواز کے طور پر پیش کرتے رہے۔تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اور ان جماعتوں کے اندرونی اختلافات تاخیر کی اصل وجہ ہیں۔کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار خلیل احمد کا کہنا ہے کہ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے کافی اختلافات اور مسائل تھے۔ حکومت میں شامل دو بڑی اتحادی جماعتیں وزارتوں کی تقسیم کے فارمولے پر متفق نہیں ہو رہی تھیں۔دونوں جماعتیں زیادہ سے زیادہ حصہ مانگ رہی تھیں۔ ن لیگ کا موقف تھا کہ وزارت اعلی پیپلز پارٹی کو ملنے کے بعد 60 فیصد وزارتیں اور مشیروں کے عہدے ن لیگ کو ملنا چاہیے تھے۔خلیل احمد کہتے ہیں کہ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ مرکز میں وزارتیں لیے بغیر ن لیگ کی حمایت کے بعد انہیں بلوچستان کابینہ میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر شیخ جعفر مندوخیل نے بھی چند ہفتے قبل اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو صوبائی کابینہ میں زیادہ حصہ دیا جائے گا۔پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے بلوچستان میں حکومت سازی کے معاہدے کے وقت طے کیا تھا کہ ن لیگ کو بلوچستان میں 60 فیصد حصہ یعنی کم سےکم آٹھ وزارتیں اور دو مشیر دیے جائیں گے، تاہم پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ایسا کوئی فارمولہ طے نہیں پایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں