مشکے کرفیو جیسا منظر پیش کررہا ہے، مقامی لوگوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے، سمی دین بلوچ

مشکے(پ ر) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کی جنرل سیکرٹری و جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین محمد نے جاری بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں جاری جنگ میں اس وقت جو سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں ان میں سے ایک مشکے اور آواران بھی ہیں۔ مشکے کے علاقے تنک میں ایک مہینہ پہلے چوکی پر حملہ ہوا تھا اس حملے کے بعد وہاں کے جو مقامی لوگ ہیں تو سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور وہ ایک اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ اپنی معمولی زندگی اور روزگار اور کمائی کو چھوڑنے پر مجبور ہیں جہاں صبح سویرے وہاں کے تمام مردوں کو چوکیوں میں لے جاکر ان سے غلاموں کی طرح مزدوری کا کام کروایا جاتا ہے۔ سمی دین محمد نے اپنے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ گزشتہ ایک مہینے سے تنک کا علاقہ کرفیو میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں پر مقامی لوگوں کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں اور نہ وہاں پر ان کو اپنی کھیتوں پر جانے کی اجازت ہے۔ وہاں کی خواتین بھوک سے مر رہی ہیں وہاں کی عورتیں اور بچے بھوک سے مر رہے ہیں اس حملے کے بعد وہاں پر تین نوجوانوں کو جبری شدگی کا نشانہ بنایا گیا جن میں 2 اپریل کو سجاد اعظم اور ولی جان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں 26 اپریل کو حاصل محمد حسن کوجبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہاں کی خواتین تین دنوں سے متواتر احتجاج پر ہیں، وہاں کے سنسان اور کچے راستوں پر وہ مارچ کر رہی ہیں وہاں پر نہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے نہ ہی موبائل نیٹورکس موجود ہیں اس کے باوجود وہاں پر احتجاج پر بیٹھے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کرایا جائے۔ سمی دین نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے سب کو آواز اٹھانا ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں