سیاسی تقسیم کی خونی لکیر

انور ساجدی
میں بارہا اپنے گزشتہ کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اگر اس ملک میں کسی سیاسی شخصیت کی زندگی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں تو وہ بلاول بھٹو زرداری ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے دھمکی دے کر اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اسکی تصدیق کردی ہے۔احسان چندہ ماہ قبل بہ مع اہل وعیال فوج کی حراست سے فرار ہوچکے ہیں اور معلوم نہیں کہ آج کل کس محفوظ پناہ گناہ میں سکون وعافیت کے دن گزاررہے ہیں موصوف جب ترجمان تھے توسانحہ اے پی ایس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے180معصوم بچوں کے قتل کوتحریک طالبان کی کارستانی قراردیاتھا۔
کوئی دوسال قبل خبرجاری کردی گئی کہ احسان اللہ احسان نے سرنڈرکیا ہے اور اپنے آپ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم وکرم پرچھوڑدیا ہے لیکن حراست کے دوران ان پر ہزاروں افراد کے قتل سینکڑوں دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات کا کوئی مقدمہ نہیں چلا اور نہ ہی سزا ہوئی۔
چندروز قبل موصوف نے ایک ٹوئٹر پیغام میں دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ ہم بلاول کو اسکی ماں کے پاس پہنچادیں گے
اس دھمکی کے باوجود بلاول اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ابھی تک 18ویں ترمیم کے خاتمہ اوراین ایف سی ایوارڈ میں ردوبدل کیخلاف ڈٹے ہوئے ہیں جو کہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ کرونا کے بعد ملکی وسائل کم ہوگئے ہیں مرکز اورصوبوں کے درمیان تقسیم بہت بڑامسئلہ ہے زیادہ رکاوٹ بننے پر بنیاد پرست اپناکام کرسکتے ہیں میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ کل اگر فاطمہ بھی سیاسی میدان میں کودیں تو انکی زندگی کوبھی اسی طرح خطرات لاحق ہوجائیں گے فاطمہ نے اپنی کتاب اور مضامین میں بارہا لکھا ہے کہ انکے والد میرمرتضیٰ بھٹو کی قاتل بینظیرتھیں لیکن انکے پاس یہ جواب نہیں ہے کہ انکے دادا بھٹو کاقاتل کون انکے والد اورچچا میرشاہ نواز کو کس نے قتل کیا اوریہ کہ کن قوتوں نے انکی پھوپھی بینظیرکی زندگی کا چراغ گل کردیا۔
فاطمہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس ریاست میں ایک مائنڈ سیٹ شروع سے موجود ہے جس کا سب سے بڑا ہتھیار مذہبی بنیاد پرستی ہے یہ مائنڈ سیٹ لیاقت علی خان کے قتل کیلئے سیداکبر سے بھی کام لے سکتا ہے حسین شہید سہروردی کو بیروت کے ہوٹل میں زہرخورانی کاشکار بناسکتا ہے بھٹو کوپھانسی چڑھواسکتا ہے اور بینظیر کے قتل کیلئے بیت اللہ محسود کے اسکواڈ کو استعمال کرسکتاہے۔بنیاد پرستی کی پہلی اینٹ تو لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پاس کرکے رکھ دی تھی لیکن اسے بام عروج پر ضیاء الحق نے پہنچادیا تھا بنیاد پرستی ان کا کارگر ہتھیار تھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے ملک کے علاوہ افغانستان اور متعدد عرب ممالک کو تاراج کردیا تھااس کا نتیجہ ہے کہ شام کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے یمن بحیثیت ریاست نیست ونابود ہوچکا ہے سوڈان دولخت ہوچکا ہے جہاں آج بھی جنتا برسراقتدار ہے مشرق وسطیٰ کا سب سے پاور فل ملک مصر کو امریکہ اور سعودی عرب نے ایک خواجہ سرا جنرل عبدالفتح سیسی کے حوالے کردیا ہے جس کی معیشت تباہ وبرباد ہے ملک کا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے جبکہ یہ عظیم ملک سعودی عرب اور اسرائیل کے طفیلیکاکردار ادا کررہاہے۔جنرل ضیاء الحق نے اسلام اور جہاد کا نام لیکر ایوب خان سے بھی زیادہ مہسیب آمریت مسلط کردی تھی وہ ایک غریب مولوی کے بیٹے تھے لیکن غریبوں سے انہیں شدید نفرت تھی انہوں نے جعلی بنیاد پرستوں نودولیتے سیٹھوں اور مارشل لاء کے گملوں میں پرورش پانے والے نوآموز سیاستدانوں پرمشتمل ایک جعلی اشرافیہ تشکیل دی جو آج تک حکمرانی کررہی ہے۔طالبان ہو،اسامہ ہو،ظواہری ہو،بیت اللہ محسود ہو یا حافظ سعید یہ محض مہرے ہیں اور انہیں وقت حالات اور ضرورت کے مطابق استعمال کیاجاتا ہے پہلے بارڈر پرجند اللہ کے نام سے کام ہورہا تھا لیکن راتوں رات جیش العدل وجود میں آگئی جو بلوچستان کے علاوہ افغانستان میں بھی سرگرم عمل ہے۔
لاکھ انکار کیاجائے کہ طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پوری دنیا یہ بات مانتی نہیں ہے امریکہ اورطالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ کس نے ہموار کی معاہدہ کیسے طے پایا اور امریکی فوج کاانخلا کیسے ممکن ہوگا یہ کوئی رازکی باتیں نہیں ہیں امریکی انخلا کے بعد جب طالبان افغانستان پرقبضہ کریں گے تو دنیا دیکھے گی کہ ہزاروں گاڑیوں کا کارواں کہاں سے افغانستان میں داخل ہوگا حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام کے علمبردار چین بھی بنیاد پرستی کواستعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتا جب جہاد کے دوران ایسٹرن ترکستان موومنٹ کے لیڈر یلدرم مارے گئے تو وہ جنوبی وزیرستان میں تھا اور چین نے اپنی مرضی کے گروپوں کے ذریعے یہ کارروائی کی حتیٰ کہ ہندوستان نے بھی بھاری رقم خرچ کرکے کئی گروپوں کی خدمات حاصل کیں۔جنوبی ایشیاء میں ضیاء الحق کے بعد بنیاد پرستی کوفروغ حاصل ہوا ہے سیکولر انڈیا کی مثال سامنے ہے وہاں پر مودی ہندوتوا نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور مسلمانوں کواس نے نیچ شودر اور شیڈو کاسٹ کی حیثیت دے رکھی ہے کم وبیش یہی حال ہمارے ملک میں اقلیتوں کا ہے کچھ عرصہ قبل ایک کرسچن خاندان کو موت کے گھاٹ اس لئے اتارا گیا کہ اس نے مسلمانوں کی آبادی میں آکر مکان خریدنے اور رہنے کی گستاخی کی تھی۔
سندھ میں درجنوں میاں مٹھو روز کمسن ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناکر اپنا دھندا چلانے میں مصروف ہیں ہمارے حکام بالا ڈھونڈ ڈھانڈ کر عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو فرماتے ہیں کہ اسامہ بن لادن شہید ہوئے ہیں اور بینظیر فوت ہوئی ہیں۔
سیاست میں یہ تراشیدہ لکیر حضرت ضیاء الحق کی ہے آج یہ جو پنجاب میں لڑائی ہے یہ کوئی نظریاتی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اس جنگ کے شاہ سوار بنیاد پرستی کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔عمران خان ہوں یا نوازشریف ق لیگ ہو یا کوئی اور ان سب کے روحانی مرشد جنرل ضیاء الحق ہیں ظاہری طور پر یہ سارے لوگ مغرب زدہ نظرآتے ہیں مگر ذہنی اعتبار سے قدامت پسند اور بنیاد پرست ہیں مثال کے طور پر عمران خان جب مغرب میں کرکٹ کھیلتے تھے یا آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے تو وہ ایک مشہور پلے بوائے تھے لیکن جونہی پہلی کتاب لکھی تو اس میں وہ زبردست بنیاد پرست دکھائی دیئے میاں نوازشریف جوانی میں ایک رومان پرور شخصیت تھے مغربی لباس کے دلدادہ تھے آج کل بھی سوٹ پہن کر ٹائی لگاکر لندن کے بازاروں میں گھومتے ہیں لیکن دل سے وہ بنیاد پرست ہیں 1990ء میں موصوف نے بینظیر کاتختہ الٹنے کیلئے اسامہ بن لادن سے امداد حاصل کی تھی اگردیکھاجائے عمران خان،نوازشریف،ق لیگ،جماعت اسلامی ایک ہی نظریہ کے لوگ ہیں اور انکے سرپرست اعلیٰ انہی خوبیوں کی وجہ سے انہیں اقتدار کی کرسی پرلے آتے ہیں۔
دوسری طرف صورتحال بہت مایوس کن ہے پیپلزپارٹی اور بلاول اے این پی اور اسفندیار کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔بدقسمتی سے وقت اور حالات بدلنے کے بعد پیپلزپارٹی اپنی نظریاتی اساس کھوچکی ہے کیونکہ زرداری ایک بڑے سرمایہ دار ہیں اور انہیں عوام اور بھٹو کے نظریات سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے بلاول کو ابھی تک اچھے اتالیق میسر نہیں آئے اسکے باوجود وہ بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ تقسیم میں وہ لکیر کے کس طرف ایستادہ ہیں۔اسفند یارولی کومارمار کر لہولہان اورسیدھاکردیا گیا ہے ایک دفعہ جو حکومت ملی تو ان کاایمان کچھ متزلزل ہوگیا لہٰذا جو جنگ ہونے والی ہے اس میں بنیاد پرستوں کا پلہ بھاری نظرآتا ہے ان سے لڑنے کیلئے جان ہتھیلی پررکھ کرمیدان میں جانا پڑے گااگر بلاول نے اس جنگ کی قیادت کی تو عین ممکن ہے کہ ان کاانجام بھی بینظیر کی طرح ہوجائے لیکن یہ ضروری بھی نہیں کیونکہ زندگی اور موت دشمن کے نہیں اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے ایک فیصلہ کن سیاسی جنگ کی اشد ضرورت ہے جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر بلاول مارے گئے تو انکی والدہ کی موت کی طرح کچھ بھی نہیں ہوگا وہ غلطی پر ہیں اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تقسیم کی لکیر خون سے لال ہوگی جس کانتیجہ انتہائی خوفناک ہوگا۔
بنیاد پرستی کے کیانقصانات ہیں اس کااندازہ خودساختہ سلطان طیب اردواں کی طرف سے آیا صوفیہ کومسجد بنانے کے فیصلے سے صاف دکھائی دے رہا ہے فیصلہ کے بعد گوگل نے اپنے نقشہ میں فلسطین کانام حذف کردیا اور اسرائیل میں ایک ربی نے اعلان کیا کہ اردواں کے فیصلے سے مسجد اقصیٰ کودوبارہ ”عظیم سنیگاگ“ بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے بنی اسرائیل دوہزار سال سے اس انتظار میں ہے کہ انکی پہلی اور عظیم ترین عبادت گاہ کب انکے ہاتھ آئے گی۔بظاہر تواردوان تمام مسلمانوں سے واہ واہ وصول کررہے ہیں لیکن اسکے فیصلہ کے دوررس نتائج برآمدہونگے۔جمعہ کو انہوں نے خود کو بت شکن اور سنت ابراہیمی کاپیروکار قراردیا کیونکہ1934ء کے بعد پہلی مرتبہ آیا صوفیہ میں نماز کی ادائیگی ہوئی۔
اردوان بھی عمران خان کی طرح سطحی بنیاد پرست ہیں اور ابھی تک ترکی کومکمل اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب نہیں ہوئے اسی طرح عمران خان بھی عوام کے جذبات کو ابھارنے کیلئے بار بار ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں حالانکہ وہ ضیاء الحق کے پیروکار ہیں اور ریاست مدینہ کے نظام سے کوسوں دور ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں