مطیع اللہ جان پاگل ہے

انور ساجدی
یہ بات تو طے ہے کہ مطیع اللہ جان اسلام آباد کاایک صحافی ہے اور تقریباً یہ بات بھی طے ہے کہ وہ ایک پاگل صحافی ہے اسکی تنگ دستی اورغربت کی وجہ بھی یہی پاگل پن ہے ورنہ وہ بھی اسلام آباد کے دیگرصحافیوں کی طرح ضرور خوشحال ہوتا کیونکہ دارالحکومت کے10فیصد صحافی کروڑ پتی ایک تہائی درمیانہ درجہ کے سیٹھ اور آدھے کافی خوشحال ہیں لیکن مطیع اللہ جان کافی عرصہ سے بیروزگار ہے اسے کوئی ٹی وی چینل ملازمت دے کر رسک نہیں لے سکتا طویل بیروزگاری کے بعد انہوں نے یوٹیوب اور فیس بک پرہاتھ چلانا شروع کردیا اس کا خاص موضوع عدالتیں اور انکے فیصلے تھے خاص طور پر جب سے قاضی فائز عیسی کا کیس چلنا شروع ہوا ہے وہ عبدالقیوم صدیقی کے ساتھ مل کر قابل اعتراض اور قابل دست اندازی پولیس پروگرام کرتا تھا غالباً اسے ادراک نہیں تھا کہ یہ کونسا دور چل رہا ہے ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور میں توسنسرشپ تھی لیکن اس دور میں سنسر شپ سے بھی ماوریٰ سلسلے چل رہے ہیں اور ایسی باتوں کی گنجائش نہیں ہے جو لمبے بال والے مطیع اللہ جان کرتا ہے وہ تو اپنی برادری کو بھی بخشنے کیلئے تیار نہیں ایک پروگرام میں اس نے بے باک سمجھے جانے والی صحافی عاصمہ شیرازی سے کہا کہ آپ بھی تو سرکاری خرچے پر حج کرنے گئی تھیں اس وقت تک بہت کم لوگوں کوعاصمہ شیرازی کے سرکاری حج کا علم تھا وہ اپنی برادری کے دیگر لوگوں کا بھی سخت ناقد تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ بلا کا سچ بولنے والا ہے اسکی اس خامی نے جہاں اسے بیروزگار کیا ہے وہاں اپنی فیملی کیلئے بہت ہی نامساعد حالات پیدا کئے اگر انکی اہلیہ اسکول ٹیچر نہ ہوتیں تو شائد ان کا چولہا بھی نہ جلتا راولپنڈی اسلام آباد کے صحافیوں کی موجیں ہی موجیں ہیں وہاں پر اگرپنجاب حکومت کوئی ہاؤسنگ اسکیم بناتی ہے تو صحافیوں کیلئے پلاٹوں کا کوٹہ ضروری رکھتی ہے اگر وفاقی حکومت کوئی اسکیم لاتی ہے تو صحافیوں کا حصہ لازمی ہوتا ہے مطیع اللہ جان اگرپاگل نہ ہوتا تو باقی صحافیوں کی طرح اس کے بھی دوچارمکان اور پلاٹ ہوتے اور اسکے گھر میں بھی خوشحالی کے ڈیرے ہوتے سچ بولنے کی وجہ سے مطیع اللہ کے گھر میں روٹی تو نہیں ہے لیکن کم بخت کا نام بڑا ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ جب اسے اسکول کے سامنے سے اغوا کیا گیا تو نہ صرف سارے ملک بلکہ ساری دنیا میں شور مچ گیا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا کہ جس نے اسے پاگل صحافی کیلئے آواز نہ اٹھائی ہو بلاول نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کل ہمارے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے اس حکومت کی دیدہ دلیری پرجی واہ واہ کرنے کو چاہتا ہے کیونکہ صحافی کے اغوا کا واقعہ دن دہاڑے ایک اسکول کے سامنے ہوا جسے کئی لوگوں نے دیکھا کوئی 12گھنٹے ادھر ادھر گھمانے کے بعد انہیں ضلع اٹک کے علاقہ فتح جھنگ کے قریب ایک ویرانے میں چھوڑدیا گیا یہ فتح جھنگ وہی علاقہ ہے جہاں پنڈی کے شیخ صاحب نے ضیاء الحق سے یہ کہہ کر ایک ہزار کینال جگہ الاٹ کروائی تھی کہ وہ یہاں مجاہدین کو ٹرینڈکرنے کشمیر بھیجا کریں گے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ انہوں نے سرکار سے حاصل کردہ وسیع وعریض اراضی کو کبھی اس کام کیلئے استعمال نہیں کیا بلکہ گزشتہ انتخابات کے وقت اپنے گوشواروں میں اسے بطور قیمتی اثاثہ ظاہر کیا جنرل ضیاء الحق کے بعد شیخ رشید نے راولپنڈی کے دل راجہ بازار میں واقع طوائف بدو بائی کے محل کو نوازشریف سے یہ کہہ کر الاٹ کروایا کہ وہ کشمیر ی مہاجر ہیں اور کلیم میں یہ کوٹھا انہیں دیاجائے اس زمانے میں نوازشریف کی سخاوت زوروں پرتھی اور شیخ رشید انکے اس طرح چہیتے تھے جس طرح آج کل عمران خان کے ہیں یکہ وتنہا نہ آگے کوئی نہ پیچھے کوئی لیکن حرص وہوس کی انتہا نہیں ہے اپنے محلے کے ڈھابے والوں سے روزانہ مفت ناشتہ کرتے ہیں 6بار وفاقی وزیر رہے ہیں معلوم نہیں ڈھیرساری دولت کہاں لے کر جائیں گے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ بطور سیاستدان ان کا کیریئر ختم ہونے والا ہے۔یہ بات شیخ صاحب کو خود بھی پتہ ہے اس لئے صرف رات کو ہی گھر آتے ہیں دن کو پولیس سیکیورٹی کے بغیر وہ راجہ بازار آنے کی جسارت نہیں کرتے کیونکہ عوام انہیں دیکھ کر کسی وقت بھی مشتعل ہوسکتے ہیں وہ کئی بار عوام کے غیض وغضب کانشانہ بن چکے ہیں لہٰذا آئندہ انہیں ووٹ ملنے والے نہیں اگر اسکے باوجود زورآور لوگ انہیں لانا چاہیں تو کون روک سکتا ہے؟
مطیع اللہ جان اگر اور کچھ نہ کرتے شیخ رشید کے پی آر او بن جاتے تو مزے کرتے یا وہ کسی طرح ملک ریاض تک رسائی حاصل کرکے انکی شان میں دوچار مضامین لکھتے تو بحریہ ٹاؤن میں گھراورقیمتی گاڑی کے حقدار ضرور ٹھہرتے یا وہ کسی طرح تحریک انصاف کی صفوں میں شامل ہوکر بنے گا نیاپاکستان کا ترانہ گاتے تو ان کا یہ حال نہ ہوتا لیکن وہ پاگل ہے اگریہ مشکل تھا تو کسی بڑے ملک میں جاکر پناہ حاصل کرسکتا تھا جیسے کہ سرل المیڈا نے کیا کیونکہ ڈان لیکس اور نوازشریف کے انٹرویو کے بعد انکے لئے اس ملک میں حالات ناموافق ہوگئے تھے۔اظہاررائے کے بارے میں اس وقت جو ہورہا ہے یہ تو ابتدا ہے کیونکہ حکومت نے بہت کچھ سوچ کررکھا ہے کم بخت مطیع اللہ جان کی وجہ سے یوٹیوب پرپابندی لگنے کاامکان پیدا ہوگیا ہے کیونکہ بے شمار لوگوں نے اپنے چینل کھول رکھے ہیں اور بڑی آزادی کے ساتھ نہ صرف حکومت پر تنقید کررہے ہیں بلکہ ملکی صورتحال کے بعض خفیہ گوشے بھی عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں ان چینلوں پرعدلیہ حکومت اوردیگرحساس معاملات پر بھی بحث کی جاتی ہے چنانچہ یہ حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ہے پیمرا نے پہلے ہی ٹی وی چینلوں کوخواجہ سرا بنادیا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا کی آزادی کافی عرصہ ہوا دم توڑچکی ہے شروع میں حکومت کاخیال تھا کہ ایک مشترکہ ریگولرٹی ادارہ بنایاجائے جو تمام میڈیا کو کنٹرول کرے اب سوشل میڈیا کوکنٹرول کرنے کیلئے نئی تراکیب تیار کرلی گئی ہیں جن کے تحت مطیع اللہ جیسے نافرمان اور سرکش صحافیوں کو اغوا کی بجائے سیدھا جیل بھیج دیاجائیگا اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزا بھی دی جائیگی جس کے بعد ایک آدھ جو سرکش صحافی ہیں وہ توبہ تائب ہوجائیں گے یا کنارہ کشی اختیار کرلیں گے۔یوٹیوب کے ساتھ فیس بک سے بھی دودو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وزیراعظم اپنی ٹیم پربرہم ہیں کہ ابھی تک وقت کیوں ضائع کیا گیا شروع میں وزیراعظم بہت خوش تھا کہ سوشل میڈیا کی انکی ٹیم دیگر جماعتوں سے زور ہے لیکن آہستہ آہستہ جب حکومت کی مقبولیت گرنے لگی تو سرکاری ٹیم کے پاس دفاع کیلئے مواد کم پڑگیا اور دیگرلوگ زورہوتے گئے کئی اینکروں نے بھی اپنے یوٹیوب چینل کھول لئے جو وہ ٹی وی پر نہیں بول سکتے تھے یوٹیوب چیلنوں پربے باکی کے ساتھ بولنے لگے اس سے حکومت کو خطرہ پیداہوگیا ہے کہ اس کا تو کوئی پردہ نہیں رہے گا ہرچیز سامنے آجائیگی حکومت کے ساتھ اہم اداروں کیلئے بھی یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوگئی یہاں تک کہاجانے لگا کہ کرپشن کے الزام میں صرف سیاستدانوں کو بدنام کیاجاتا ہے باقی لوگ تو زیادہ کرپشن بھی کررہے ہیں لیکن ان کا نام کوئی نہیں لیتا مطیع اللہ جان جیسے لوگوں سے عوام کو اس طرف توجہ دلائی جس سے معاشرے میں ایک کھلی اور آزادانہ بحث شروع ہوگئی۔یہ بات توطے ہے کہ جہاں آمریت ہو وہاں پر سوال کرنے یا اشرافیہ کی کمزوریوں پر بحث کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن پاکستان کے عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعہ سوال کرنا سیکھ لیا ہے جس کی وجہ سے حکمران طبقہ خائف ہے کیونکہ یہ لوگ جہاں جاتے ہیں انہیں سوالات کاسامنا کرناپڑتا ہے جبکہ انکی کمزوریاں اتنی ہیں کہ وہ جواب نہیں دے سکتے اس لئے اشرافیہ کو یہ خیال آگیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو معاشرے میں بغاوت جنم لے گی اور یہ عوام کے غیض وغضب کاسامنا نہیں کرپائیں گے آوازوں کوبند کرنادبا دینا حکمران طبقہ کا پرانا وطیرہ ہے سقراط کا یہ قصور تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو سوال کرنا سکھایا تھا جبکہ اس نے اپنا فلسفہ کبھی تحریر نہیں کیا سوال کرنے کے ہی جرم میں انہیں زہر پینے پر مجبور کردیا گیا گزشتہ ادوار اور موجودہ دور میں یہی فرق ہے کہ یہ ابلاغ کا دور ہے اطلاعات کی رفتار آواز کی رفتار سے تیز ہوکر تقریباً سورج کی رفتار کے برابر ہوگئی ہے۔چنانچہ اس دور میں اطلاعات کو روکنا احمقانہ سوچ ہے حکمران اشرافیہ کی جانب سے اپنے آپ کو پارسا ظاہر کرنا بہت بڑا مذاق ہے کیونکہ عوام حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں انہیں آمر ڈرا کراغوا کرکے یا انکی جان لیکر دہشت توپھیلا سکتے ہیں لیکن حقیقت کو چھپانہیں سکتے۔مطیع اللہ جان جیسے ایک آدھ پاگل موجود ہوتا ہے یہ لوگ استعارہ کی حیثیت رکھتے ہیں سچ بولنے والے بے شک تعداد میں کم ہوں لیکن انکی ایمانی طاقت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اسلام آباد میں کئی ایسے اینکر اور صحافی ہیں جنکے فارم ہاؤس کروڑوں کے ہیں انکی روحانی،اخلاقی اور ایمانی قوت صفر کے برابر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں