ایچ ای سی اور بلوچستان کے طلبہ

جیند ساجدی
معروف فلسفی جارج گڈ براؤن لکھتے ہیں کہ ”متعصب شخص دلیل کو مانتا ہی نہیں ہے‘ احمق دلیل کو سمجھتا ہی نہیں ہے جبکہ غلام شخصیت کے مالک میں دلیل دینے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ اگر ایچ ای سی (HEC)کے اعلیٰ عہدیداروں کے بلوچستان کے طلباء کے ساتھ رویہ اور ان کی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایچ ای سی کے عہدیدار بلوچستان کے طلباء کو لے کر متعصب بھی ہیں اور احمق بھی۔ویسے متعصب اور احمق کا آپس میں بہت قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ کوئی احمق شخص ہی متعصب ہو سکتا ہے۔ ایچ ای سی کا قیام 2002ء میں مشرف دور میں ہوا تھا اس کے قیام کا مقصد اعلیٖ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا‘ جامعات میں تحقیق کو فروغ دینا اور طلباء کو ملکی و بیرونی اسکالرشپ عطا کرنا تھا۔ ایچ ای سی سے قبل اعلی تعلیم کی ذمہ داری یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ماتحت تھی۔ ایچ ای سی کی کارکردگی کچھ حوالے سے مثبت رہی ہے جبکہ کچھ حوالے سے منفی۔ ایچ ای سی کے قیام سے پہلے جامعات کی تعداد محض31تھی لیکن اب تقریبا150 سے زائد جامعات ہیں۔ لیکن تحقیق میں کسی ملکی جامعہ نے کوئی قابل ستائش کارنامہ سر انجام نہیں دیا اور جامعات تیھسز میں سرقہ بازی(Plagiarism) عام ہے۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد طلباء کیلئے ملکی و بیرونی اسکالر شپ کے فنڈز میں کافی اضافہ ہوا ہے ملکی آئین کے مطابق بلوچستان کا کوٹہ وفاقی اداروں میں محض6 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ لیکن آئین کے برعکس ایچ ای سی نے بلوچستان کے طلباء کے لئے اسکالر شپ میں محض 3 فیصد ہی کوٹہ مختص کیا ہے جو کہ ایک بڑی ناانصافی ہے لیکن اس سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ ایچ ای سی نے یہ تین فیصد کوٹہ بھی بلوچستان کے طلباء کو پورا نہیں دیا اور بلوچستان کے طلباء کیلئے متعدد ملکی و غیرملکی اسکالر شپ کے دروازے بند کئے گئے ہیں پسماندہ بلوچستان کے طلباء اپنی اسکالر شپ کا محض تین فیصد کوٹہ اس لئے پورا نہیں کر سکتے کہ وہ ایچ ای سی کے اسکالرشپ کے امتحانات پاس نہیں کر سکتے بلکہ اس لئے کیونکہ وہ ایچ ای سی کی اسکالر شپ کے امتحانات میں حصہ ہی نہیں لے سکتے۔ اس کی وجہ ایچ ای سی کے بنائے گئے احمقانہ شرائط ہیں ایچ ای سی کی اسکالر شپ کے امیدواروں کیلئے یہ لازمی ہے کہ ان کی تعلیمی کیرئیر میں کوئی بھی تھرڈ ڈویژن ڈگری نہ ہو۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بنیادی تعلیم کا کوئی نظام نہیں اس لئے دور دراز علاقوں کے طلباء کا میٹرک یا انٹرمیڈیٹ میں تھرڈ ڈویژن لانا عام بات ہے اور ان کی اس تھرڈ ڈویژن کو ایچ ای سی کبھی معاف نہیں کرتا ایچ ای سی کی تھرڈ ڈویژن نہ ہونے کی احمقانہ شرائط کی وجہ بہت سے محنتی اور ہونہار طلباء اسکالر شپ حاصل کرنا دور کی بات ہے وہ اسکالر شپ کے امتحان دینے سے ہی محروم رہ جاتے ہیں۔
ایسی شرائط صرف پاکستان کے ایچ ای سی نے ہی بنائے ہیں بین الاقوامی اسکالر شپ جیسے کے شیوننگ (برطانیہ) یو ایس ای ایف پی (امریکہ) آسٹریلن ایوارڈ (آسٹریلیا) وغیرہ میں تھرڈ ڈویژن کی کوئی شرط نہیں نہ ہی دنیا کی کسی معروف بین الاقوامی جامعہ میں یہ شرط ہے کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں تھرڈ ڈویژن والوں کو وہ داخلہ نہیں دیں گے۔ انہی تمام بین الاقوامی اسکالر شپ شیوننگ یو ایس ای ایف پی‘ آسٹریلین ایوارڈ وغیرہ میں یہی تحریر کی گئی ہے کہ پسماندہ علاقوں کے طلباء کو ترجیح دی جائے گی اسکالر شپ کا بنیادی مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ پسماندہ علاقوں اور متوسط طبقے کے طلباء کو معیاری تعلیم کا موقع دیا جائے لیکن ایچ ای سی بالکل اس کے برعکس اسکالر شپ فراہم کر رہا ہے تھرڈ ڈویژن کی شرط کی وجہ سے بلوچستان‘ اندرون سندھ اور فاٹا کے طلباء کیلئے اسکالر شپ،اعلی اور معیاری تعلیم کے راستے بند ہو گئے ہیں اور محض بڑے شہروں یا اشرافیہ کے بچوں کیلئے جو پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں ان کیلئے اسکالر شپ کے راستے کھلے رکھے گئے ہیں۔حالانکہ مالی مدد متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے ہونی چاہیے لہذا ایچ ای سی کی تھرڈ ڈویژن کی شرط اس کی متعصبانہ اور احمقانہ رویے کی عکاسی کرتی ہے۔
کورونا وائرس کے دوران بھی ایچ ا ی سی نے پھر سے اپنی جانبداری اور پسماندہ علاقوں کے طلبہ سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کورونا وائرس کی وجہ سے مارچ سے ملک بھر کے جامعات بند ہیں۔ مئی میں ایچ ای سی نے جامعات کو آن لائن کلاسز لینے کے احکامات جاری کئے تھے لیکن یہ احکامات جاری کرتے وقت ایچ ای سی نے بلوچستان و دیگر پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا شائد ایچ ای سی کے عہدیدار محض کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے طلبہ کو ہی ملک کے طلبہ تسلیم کرتے ہیں ان کو یہ بھی علم نہیں بلوچستان کے 14اضلاع میں انٹرنیٹ کی بندہے جس کی وجہ سیکورٹی وجوہات بتائی گئی ہیں اس کے رد عمل میں بلوچستان کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا اور اپنے خدشات سے ایچ ای سی کو آگاہ کیا کہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے طلبہ کیلئے آن لائن کلاسز لینا ناممکن ہے تو ایچ ای سی کے سمجھدار اعلیٰ عہدیداروں نے اس مسئلے کا آسان حل یہ نکالا جن طلباء کے پاس انٹرنیٹ میسر نہیں جو اپنا سمسٹر منجمد(Freeze) کروا لیں یعنی طلبہ اپنا ایک سال ضائع کر لیں۔ایچ ای سی کا یہ اعلامیہ متوسط طبقے اور دور دراز علاقوں کے طلبہ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ ایچ ای سی کے بے حسانہ رویے کے بعد بلوچستان کے طلبہ نے احتجاج کیا اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکٹایا لیکن ایچ ای سی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا حال ہی میں بلوچستان کی ایک جامعہ اپنے امتحانات کا ٹائم ٹیبل کا اعلان عدالتی فیصلے سے قبل ہی کر لیا تھا
البرٹ آئن سٹائن کہتے ہیں ”ایک کم عقل انسان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ آسان سے آسان مسئلے کو پیچیدہ بنا دیتا ہے جبکہ ایک سمجھدار انسان مشکل سے مشکل مسئلے کا حل آسان کر دیتا ہے“ طلبہ کے احتجاج کو تقریبا دو ماہ ہو گئے ہیں چھوٹی عید سے کچھ دن قبل ہی ملک بھر میں عوام نے بازاروں کا رخ کر کے حکومتی لاک ڈاؤن اور نام نہاد ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔ دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے عوام سمارٹ لاک ڈاؤن کو تسلیم نہیں کر رہے، سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم اور بازاروں میں کافی رش دیکھنے کو ملتا ہے،دکانوں میں ایس او پیز کا قانون برائے نام، پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بسوں میں بھی سماجی فاصلہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
گزشتہ دو ماہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لاک ڈاؤن محض تعلیمی اداروں کیلئے ہے لہذا بہتر یہی ہوتا کہ ایچ ای سی بھی حکومت کی طرح نام نہاد ایس او پیز بنا کر جامعات کے کھلوانے کا حکم دیتا ایس او پیز میں یہ شامل ہوتا ہے کہ جامعات میں تمام کینٹین بند رہیں گے کلاسز میں سماجی فاصلے کیلئے ایک کلاس دو سیکشنز میں تقسیم کیا جاتا اور طلبہ کو کلاسزکے ختم ہونے کے بعد جامعات میں وقت گزرانے کی اجازت نہیں ہوتی یقینا ملک بھر کے بازاروں اور پبلک ٹرانسپورٹر کی طرح یہ ایس او پیز بھی برائے نام ہوتے لیکن اسے کم از کم طلبہ کا ایک سال اور ایچ ای سی کا امیج بلوچستان میں کچھ بہتر ہوتا ایچ ای سی کے نئے اعلامیے کے مطابق جامعات 15ستمبر سے پہلے نہیں کھل سکتیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اگلے دو ماہ تک بھی محض جامعات میں ہی لاک ڈاؤن ہو گا نظام زندگی اسی طرح رواں دواں رہے گا لگتا ہے اب کورونا سے سب سے زیادہ خطرہ طلبہ کو ہے۔طلبہ کے احتجاجوں اور ایچ ای سی کی ہٹ دھرمی کے دوران بلوچستان کے نام نہاد صوبائی اور وفاقی نمائندے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ان کی خاموشی سے جارج گڈ براؤن کی بات درست ثابت ہوتی ہے کہ معتصب دلیل نہیں مانتا‘ احمق دلیل نہیں سمجھتا اور بلوچستان کے نام نہاد نمائندوں میں اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے دلائل دینے کی ہمت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں