صحافیوں کا جرم

زبیر بلوچ
دنیا بھر میں صحافیوں کو مصائب و مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کی پیشہ وارانہ ذمہ دارایاں ہیں جنہیں سرانجام دینے کے جرم میں اب تک کئی صحافی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ کئی صحافی ایمانداری و دیانتداری سے کام کرنے کی وجہ سے نوکریوں سے فارغ کردیئے گئے ہیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافت کرنا انتہائی مشکل کام بن چکا ہے دنیا میں جہاں بھی سچ و انصاف آئین کی بالادستی و جمہوریت مخالف قوت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو،وہاں صحافیوں کیلئے مشکلات کا بڑھنا یقینی امر بن جاتا ہے۔
پاکستان میں سالانہ سینکڑوں ایسے واقعات ریکارڈ ہوتے ہیں جہاں صحافیوں کو دھمکانے،مارنے، تشدد کرنے، اوران کے خلاف مختلف قسم کے جھوٹے مقدمات بنانے انہیں جھوٹے کیسز میں جیل میں ڈالنے،ان کے پروگرامز کو سینسر کرنے کے واقعات پیش آتے ہیں جو بھی صحافی حق و انصاف کی بات کرنے یا لکھنے کی کوشش کرے گا اس کو ان جیسے حالات کا سامنا ہوتاہے، جیو نیوز کے اینکر اور مشہور معروف صحافی حامد میر نے جب بلوچستان پر ایک پروگرام کیا تو اس کے بدلے اس کو سرے عام گولیاں ماری گئیں یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بچ گیا ورنہ جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ تمام صحافیوں کیلئے ایک واضح پیغام تھا۔
صحافیوں کیلئے جو لائن کھینچ دی گئی ہے اس کے دائرے میں بیٹھ کر وہ پروگرام کریں وہ پاکستانی صحافی جو اس پیشہ میں اپنی ضمیر کا سودا کرچکے ہیں انہیں طاقتور قوتوں کی طرف سے باقاعدہ مراعات ملتی ہیں جبکہ وہ صحافی جو اس پیشے سے مخلص اور ایماندارانہ طور پر کام کرنا چاہتے ہیں انہیں مطیع اللہ جان کی طرح یا تو اغواء کیا جاتا ہے یا حامد میر کی طرح سرعام بازار میں گولیاں ماری جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں مطیع اللہ جان کی جبری گمشدگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس ملک میں ان صحافیوں کیلئے جگہ ہے جو سچ کو چھوڑ کر حکومت و اسٹیبلشمنٹ کی تعریف کے گن گاتے ہیں حالات کو اس طرح نامساعد بنادیا گیا ہے کہ اب رعایت کو کوئی بھی باشعوربندہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ شعور رکھنا اور حق و انصاف کی خاطر کھڑا رہنے والے ہر شخص اس ملک میں اب خطرے میں پڑچکا ہے مطیع اللہ اغواء کے پیچھے کچھ مخصوص افراد نہیں بلکہ وہ ذہنیت موجود ہے جو سچ کو اپنے وجود کیلئے خطرہ سمجھتی ہے جو عام شہری کوریاست کا حصہ نہیں سمجھتی جس کے سامنے قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو حکومت و آئین کی بالادستی کی بجائے اپنے بنائے قانون کو ترجیح دیتی ہے جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ آج سرے عام مطیع اللہ جان جیسے صحافی لاپتہ ہوجاتے ہیں جبکہ انور کھیتران جیسے صحافی دن دیہاڑے قتل ہوجاتے ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ حقیقت پر کھڑے رہنے والے لوگوں کو بنا کسی خوف و خطر نشانہ بنا سکتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہر روز کسی صحافی کو تشدد بنانے یا دھمکانے کا واقعہ پیش آ جاتا ہے۔
پنجاب کے صحافیوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کیلئے ملک و دنیا بھر سے آوازیں اٹھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی بازیابی کی امیدیں ہمیشہ رہتی ہیں لیکن بلوچستان میں کسی بھی صحافی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے حق و انصاف پر مبنی رپورٹنگ کریں۔2011 سے 2015 کے درمیان بلوچستان سے چالیس سے زائد صحافی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جبکہ بہت سے صحافی لاپتہ کردیئے گئے لیکن آج تک کسی کی کان پر جوں تک نہیں رینگی، مختلف حکومتیں بدلتی رہیں،مختلف پارٹیاں برسراقتدار آئیں لیکن آج تک ان صحافیوں کے قاتلو ں کا کھوج نہیں لگایا گیا یا ان کا کھوج لگانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں میڈیا کی آزادی ایک خواب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا بھی بلوچستان کے معاملے میں یکطرفہ رویہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے ایک دہائی سے بلوچستان میں مثبت رپورٹنگ نامی شے وجود نہیں رکھتی جبکہ یہاں پر صحافت برائے نام رہ گئی ہے۔ملک میں جس طرح صحافت کا گھلا گھونٹے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غیر جمہوری قوتیں پاکستان بھر میں بچھی کچی محدود پیمانے پر بات کرنے والے صحافیوں کو بھی خاموش کروادیں یاانہیں ملک بدر کردیں جس طرح صحافیوں کی ایک بڑی تعداد آج جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اب تک جلاوطن صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں، جس کی حالیہ مثال ساجد حسین کی پراسرار گمشدگی و موت تھی جس کے بعد اب یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک سے باہر بھی ایماندارانہ رپورٹنگ قبول نہیں کی جائے گی۔انورکھیتران کو کس گناہ کی سزا دی گئی ہے اب تک اس کی تحقیقات نہیں ہوئی ہے البتہ مجھے یقین ہے کہ انور کھیتران کوبھی اپنی صحافتی و سوشل میڈیاکی سرگرمیوں کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کر دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں تمام محکموں میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں جب سچا اور ایماندار لوگوں کو دن دیہاڑے اغواء اور قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو لازماً ملک کے محکموں میں ایماندار لوگ نہیں بیٹھیں گے۔جب تک صحافیوں کو ٹارگٹ کرنے کا یہ نہ رکھنے والا سلسلہ جاری رہے گا جب تک طاقتور قوتوں اظہار رائے آزادی کیخلاف سازشیں بند نہیں کریں گے اور جمہوری و حقیقی قوتوں کو کمزورکرانے کا سلسلہ نہیں رکھے گااس ملک کا آگے چلنا کسی صورت ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں