کورا کاغذ

انور ساجدی
جب سے وزیراعظم عمران خان برسراقتدار آئے ہیں انکی صدارت میں پہلی مرتبہ بلوچستان کے بارے میں ایک غیرمعمولی اجلاس ہوا ہے اجلاس میں طے ہونیوالے معاملات کی تفصیلات کوظاہر نہیں کیا گیا تاہم یہ ضرور کہا گیا کہ ”جنوبی بلوچستان“ میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کرنے کیلئے ”مکمل امن وامان“ قائم کیاجائے گا یہ جوبلوچستان کوشمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا ہے یہ تذویراتی اورسیاسی اعتبار سے بذات خود بہت بڑا فیصلہ ہے جس کے دورس نتائج سے بلوچستان کے عام لوگ آگاہ نہیں ہیں اسی طرح سوائے ہوشاپ آواران روڈ کے جو دیگر میگا منصوبے ہیں ان کا ابھی تک باقاعدہ اعلان نہیں کیاگیا۔
”اسلام آباد سمٹ“ کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اعلیٰ عسکری قیادت کے علاوہ وزیراعلیٰ جام میرکمال خان عالیانی کو بھی مدعو کیا گیا تھاچونکہ امن وامان کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے اس لئے انہیں اعتماد میں لینا ضروری تھا غالباً جنوبی بلوچستان کے منصوبے ابتک جس تاخیر کا شکار ہیں اس کی وجہ امن وامان کی خراب صورتحال کو قراردیا گیا ہے چنانچہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر پوری کوشش کریں گے کہ جنوبی بلوچستان میں ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور کرکے ترقیاتی مقاصد حاصل کئے جائیں۔بلوچستان کا یہ حصہ جس میں ساحلی پٹی شامل ہے سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے شدیدپسماندگی کاشکار ہے یہاں کابنیادی گیم چینجرمنصوبہ ساحلی شاہراہ ہے جو جنرل پرویز مشرف نے بنائی انہوں نے میرانی ڈیم بھی بنایا اس سے قبل کسی حکومت نے کوئی بنیادی کام نہیں کیاتھا۔جنرل مشرف کا اہم ترین منصوبہ گوادر پورٹ کی تعمیر تھا انہیں معلوم تھا کہ گوادر پورٹ آئندہ چل کر اس خطے کی اقتصادی سرگرمیوں کا محور بنے گا انہیں اندازہ ہوگا کہ گوادر پورٹ محض ایک بندرگاہ نہیں ہوگا بلکہ تذویراتی اہمیت کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہوگا رفتہ رفتہ ثابت ہورہا ہے کہ گوادرپورٹ کے دو پہلو ہونگے ایک یہ کہ اسے تجارت اور نقل وحمل کیلئے استعمال کیاجائے گا دوسرا یہ چین یہاں موجود رہے گا جس سے اس پورے خطے میں ایک توازن یاعدم توازن قائم ہوجائے گا گوادر کے سامنے اوپن سی ہے جبکہ چاہ بہار خلیج کی کھاڑی میں واقع ہے حالانکہ دونوں کے درمیان صرف100کلومیٹر کا فاصلہ ہے چین کی کیا پالیسی ہوگی یہ کوئی نہیں جانتا لیکن چین ایران میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے یہاں پر وہ سی پیک پر60ارب ڈالر خرچ کررہا ہے جبکہ ایران کو اس نے4سو ارب ڈالر کے منصوبوں کی پیشکش کردی ہے۔
بہرحال چین اور پاکستان کو جنوبی بلوچستان کورے کاغذ کی طرح چاہئے کیونکہ حکمرانوں کا خیال ہے کہ ایک پرسکون ماحول کے بغیر تیز رفتارترقی ممکن نہیں ہے اگرغور کیاجائے تو خضدار سے لیکر ہوشاپ تک پورا علاقہ صحرائے چولستان کا منظر پیش کرتا ہے سوراب سے پنجگور تک ایک معمولی سڑک توتعمیر کی گئی ہے لیکن خضدار سے نیچے کسی حکومت نے کسی کام میں ہاتھ نہیں ڈالا۔حالانکہ اصل موٹروے کی ضرورت اسی علاقے میں ہے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ضلع آواران بلوچستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے یہاں کوئی بھی بنیادی سہولت موجود نہیں ہے تعلیم،صحت اورروزگار کے حوالے سے یہاں کے لوگ قرون اولیٰ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ایک اندازہ کے مطابق اس ضلع کی نصف آبادی لسبیلہ اور کراچی کی طرف نقل مکانی کرچکی ہے دنیا کی ہر بیماری اسی ضلع میں موجود ہے یہ قدرتی اورانسانی آفات کاشکار بھی ہے غربت اتنی زیادہ ہے99فیصد آبادی کوایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے حالانکہ یہاں سے میرعبدالقدوس بزنجو چند ماہ کیلئے وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں وہ آج کل اسپیکر ہیں جبکہ انکے والد محترم ڈپٹی اسپیکر اور دوبار وزیربھی رہے ہیں لیکن وہ کوئی قابل قدر ترقی نہیں لاسکے نئے پلان کے تحت آواران اورجھاؤ کوکلیئر کرکے ترقی دی جائے گی جھاؤ میں ایک کیڈٹ کالج زیرتعمیر ہے آواران میں ایک جدید بستی بسانے کا پروگرام ہے لیکن جب تک آواران کوسڑک کے ذریعے خضدار سے نہیں ملایاجائیگا اور جھاؤ سے بیلہ تک اچھی سڑک نہیں بنائی جائے گی تبدیلی ناممکن ہے اندازہ یہی ہے کہ پہلے حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی اسکے بعد ہی ترقیاتی منصوبوں کو ”عملی“ شکل دی جائے گی اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس وسائل کم ہیں۔اس لئے وفاق نے جنوبی بلوچستان کے اہم ترین منصوبوں کی تکمیل کیلئے ایک پیکیج دینے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ اس پیکیج کے کل حجم کا تو معلوم نہیں ہے لیکن اندازہ یہی ہے کہ اندازہ پانچ برسوں میں اس علاقہ پر مجموعی طور پر ایک سو ارب روپے خرچ کئے جائیں گے اور یہ ساری رقم وفاقی حکومت فراہم کرے گی اس منصوبہ کے تحت متعدد نئی سڑکیں بنائی جائیں گی۔گوادر کو پانی کی فراہمی کیلئے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں گے جبکہ ہنگول ڈیم کی فزیبلٹی کا ازسرنو جائزہ لیاجائیگا۔حکومت کاپروگرام ہے کہ ایک طرف وہ گڈانی سے لیکر جیونی تک اپنی رٹ پوری طاقت کے ساتھ قائم کرے گی جبکہ دوسری طرف قلات سے گوادر تک اس بات کو یقینی بنایاجائیگا کہ امن وامان میں دخل اندازی کرنے والے عوامل باقی نہ رہیں اس مقصد کیلئے مزید چوکیاں قائم کی جائیں گی ساحل کی ترقی کیلئے پورے علاقے کوسرکاری تصرف میں لایاجائیگا۔اورماڑہ تو پہلے سے تصرف میں ہے پسنی اور کلمت میں بھی جدید تنصیات کا قیام عمل میں لایاجائیگا۔اگرچہ سعودی عرب کی ریفائنری کامعاملہ کھٹائی میں پڑچکا ہے کیونکہ سعودی عرب کی مالی حالت خراب ہے۔البتہ یو اے ای سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ویسے تو جنوبی بلوچستان کیلئے ان گنت منصوبے بنائے گئے ہیں کیونکہ حکومت کا خیال ہے کہ اگرعالمی سرمایہ کاری آئی تو اسی علاقے میں آئیگی ایک تویہ خلیج میں واقع ہے دوسرا یہ کہ اسکی گرم آب ہوا صنعتی یونٹوں کیلئے نہایت موزوں ہے اگر سعودی عرب نے ریفائنری نہیں لگائی تو ایران سے گیس لانے کے معاملہ پر دوبارہ غورشروع کیاجائے گا کیونکہ یہاں قائم ہونے والے صنعتی زونوں کیلئے گیس وافر مقدار میں چاہئے اسی طرح یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ گوادر کیلئے چین کی مدد سے ایک علیحدہ بجلی گھر قائم کیاجائے گااگرگیس آگئی تو یہ گیس پر منتقل کردیاجائیگااس کے ساتھ ہی پوری ساحلی پٹی کو بجلی کے نیشنل گرڈسے منسلک کردیاجائیگا حکومتی منصوبوں کے بارے میں اگرچہ کوئی نہیں جانتا لیکن میراگماں کہتا ہے کہ تربت اور آواران کو بہت اہمیت دی جائے گی اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ کیچ اور آواران اضلاع کے لوگ پہاڑوں کوچھوڑ کر شہروں میں آباد ہوجائیں ایک شہر جھاؤ میں بھی آباد کرنے کا پروگرام ہے۔حکومت کی اربنائزیشن پلان کے تحت گنز اورپیشکان کو بھی جدید شہر بنانا مقصود ہے کیونکہ سرکاری اداروں نے جس طرح بڑے پیمانے پر یہاں کی زمینیں حاصل کی ہیں اس سے کم از کم یہی پتہ چلتا ہے اگر حکومت نے جنوبی بلوچستان اور خاص طور پر ساحلی پٹی کوجلد ترقی دینے کافیصلہ کیا ہے تو اسکی مہربانی اس کا شکریہ دیدآید درست آید لیکن ایک حقیقت پیش نظر نہیں ہے کہ بلوچستان کے غریب دہقان، ماہی گیر، چرواہے اورگڈریئے ایسی تیزرفتار ترقی کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انکے پاس علم ہنر اور سرمایہ نہیں ہے اگرحکومت مخلص ہے تو چین کی طرح لاکھوں مکانات بناکر مقامی آبادی کو مفت فراہم کرے ورنہ وہ کروڑوں کے بنگلے اورفلیٹ خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے اور نہ ہی وہ جدید شہروں میں آکر اپنے نئے روزگار تلاش کرسکیں گے اس سلسلے میں کئی سوالات ہیں اور یہ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کو ممکنہ تبدیلیوں مشکلات اور مواقع سے آگاہ کرے ایسا نہ ہوکہ ترقی تو آئے لیکن وہ اہل بلوچستان کیلئے بے ثمر ثابت ہواور وہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اور علاقوں کا رخ کریں جو بھی منصوبے ہیں انکے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیاجائے اگر عوام اس قابل نہیں ہیں تو منتخب اراکین پارلیمنٹ وصوبائی اسمبلی کوبریفنگ دی جائے تاکہ وہ اپنے ووٹروں کے پاس جاکر انہیں حالات سے آگاہ کریں میرے خیال میں یہ پریکٹس بھی ایک طرح سے بے کار ہوگی کیونکہ سیاسی جماعتوں میں اتنی جان اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ کوئی کردار ادا کرسکیں کیونکہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں وہ شہروں میں 10افراد کے مظاہرے یا پریس کانفرنس کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتیں۔البتہ وہ پارلیمنٹ میں سرکار سے سوال پوچھ سکتے ہیں بلوچستان کے اراکین اسمبلی کا کیااگرآج انہیں سرکاری پارٹی کے برابر فنڈز جاری کئے جائیں تو سارے خاموش ہوجائیں گے ویسے بھی بلوچستان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔
سندھ حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے بھائی ضیاء الرحمن کو کراچی کے ضلع وسطی کا ڈپٹی کمشنر تعینات کردیا ہے مولانا کے بھائی پشتونخوا حکومت کے زیر عتاب تھے۔گزشتہ دنوں جب انکی ملاقات زرداری سے ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی کاتذکرہ کیا جس کے بعد انہیں ڈیپوٹیشن پر کراچی بلاکر ڈپٹی کمشنر لگانے کافیصلہ کیا گیا اس تعیناتی سے حکمران اتحاد میں کھلبلی مچ گئی ہے حالانکہ سندھ میں دیگر صوبوں کے کئی افسران کام کررہے ہیں تحریک انصاف کے ایسے مشیر اوروزیراعتراض کررہے ہیں جو غیرملکی ہیں بھلا ان پردیسیوں اورغیرملکیوں کواعتراض کرنے کا کیا حق حاصل ہے ادھر ایم کیو ایم نے بھی اس تعیناتی پر سخت تنقید کی ہے اگرچہ ایم کیو ایم سندھ کا اسٹیک ہولڈر ہے لیکن اگر دور جایاجائے اوردیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو بھی اعتراض کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔کنور نوید نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اعتراض اٹھایا انہیں معلوم ہوناچاہئے جس خطے میں پاکستان موجود ہے وہاں پر کنور نہیں ہوتے بلکہ یہ مخلوق سرحد کے اس پارہوتی ہے۔ضیاء الرحمن افغانستان کے باشندہ نہیں جو ان پر اعتراض کیاجائے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں