جنوبی فرانس میں یہودی عبادت گاہ کے باہر دھماکا

پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک)جنوبی فرانس میں یہودی عبادت گاہ کے باہر کھڑی دو گاڑیوں کو آگ لگانے کی وجہ سے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن نے لاموٹے کے سمندر کنارے قائم یہودی عبادت گاہ بیتھ یاکوو کے باہر ہونے والے واقعے کو مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’واقعے میں ملوث افراد کو دھونڈنے کے لیے تمام وسائل بروکار لائے جارہے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ پولیس یہودی اسکولوں، عبادت گاہوں اور دکانوں میں سخت حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے گی۔پولیس کی یونین الائنس پولیس نیشنل کے ولیم مورے نے نشریاتی ادارے ’بی ایف ایم ٹی وی‘ کو بتایا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کی حالت خطرے سے باہر ہے۔پولیس نے آگ لگانے کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمنن اور وزیراعظم گیبریل اٹل نے ہفتے کے روز جائے وقوع کا دورہ کیا۔وزیراعظم گیبریل اٹل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پیغام میں لکھا کہ ’یہ ایک یہود مخالف حملہ ہے اور ایک بار پھر فرانس میں رہنے والے یہودیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم تشدد کے خلاف، یہود دشمنی کے سامنے ہار نہیں مانیں گے اور ہم کبھی بھی اپنے آپ کو خوفزدہ نہیں ہونے دیں گے۔‘پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکا ممکنہ طور پر ایک گاڑی میں چھپائے گئے گیس سلنڈر کے پھٹنے سے ہوا۔واضح رہے یہ دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں غزہ تنازع کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔جیرالڈ ڈارمنن کا کہنا تھا کہ 2024 کے پہلے نصف حصے میں حکومت نے فرانس میں 887 یہو مخالف حملوں کا اندارج کیا ہے جو سال 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے تین گنا زیادہ ہیں۔دوسری طرف فرانس میں یہودی اداروں کی نمائندہ کونسل (سی آر آئی ایف) نے دھماکے کو یہودیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔سی آر آئی ایف کے صدر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ گاڑی میں ایک ایسے وقت میں گیس سلنڈر کو استعمال کرنا جب عبادت گزاروں کے یہودی عبادت گاہ میں پہنچنے کا وقت ہو صرف ایک مجرمانہ فعل نہیں ہو سکتا، یہ یہودیوں کو نشانہ بنانے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں