کراچی ٹرک اڈہ کے نقصانات

تحریر: بلاول ساجدی

یہ سب جانتے ہیں کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور قدیم شہر ہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ شہر پاکستان کادارالحکومت رہا ہے اور اسوقت یہ شہر صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ یہ شہر کئ ناموں سے پہچانا جاتا ہے ۔کراچی کوروشنیوں کاشہر بھی کہا جاتا تھا اور یہاں پورٹ سٹی بھی ہے۔
کراچی میں ایک بندرگاہ کیماڑی میں واقع ہے اور جس شہر میں بندرگاہ ہوتی ہے ۔ وہاں لازماً ٹرک اڈہ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ کراچی میں سب سے پہلے مچھر کالونی میں ٹرک اڈہ بنایا گیا تھا کیونکہ وہ علاقہ بندرگاہ سے قریب تھا اور رہائشی آبادی بھی کم تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس علاقے میں رہائشی آبادی بڑھنے لگی تو اسوقت کے ذمہ دار حکومت اور ذمہ دار لوگوں نے مچھر کالونی سے کراچی ٹرک اڈہ کو ماڑی پور میں منتقل کر دیا ۔
اسوقت ماڑی پور کا شمار جنگل نما اور کم رہائشی آبادی والے علاقوں میں ہوتا تھا.جس وقت کراچی ٹرک اڈہ بنا اس وقت کراچی کی آبادی بھی بہت کم تھی اور گاڑیوں کی تعداد بھی ٹریفک بھی معمول کے مطابق رواں دواں ہوتی تھی ۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا .گورنمنٹ اور پرائیوٹ گاڑیوں کے اضافہ کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔
کراچی میں ٹرک اڈہے کی وجہ سے عوام کو بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ملک میں بڑی اور بھاری گاڑیوں کا شہر میں داخلے اور شہر سے باہر جانے کا وقت مقرر ہے۔ مگرافسوس بدقسمتی سے کراچی میں کوئی خاص اوقات کار مقرر نہیں ہیں دن کے اوقات میں یہ بھاری گاڑیوں کے ڈرائیور کراچی ٹرک اڈہ سے اپنی گاڑیوں کو بندرگاہ لے جا کر اپنا مال لوڈ کر کے شہر کے بیچوں بیچ سے ہو کر سپر ہائی وے پر جاتے ہیں اور پھر اپنے متعلقہ سفر کے لیے روانہ ہو تے ہیں۔
جب مال سے بھری ہوئے ٹرک اور ٹرالے شہر کی بیچ سڑک سے گزرتے ہیں تو شہر کی ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتے ہیں۔اس دوران عام شہری گھنٹوں ٹریفک کے رش میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار بیمار افراد رش میں پھنس جانے کے وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں بس یہی نہیں بھاری گاڑیوں کی تیز رفتاری کے باعث بڑے بڑے حادثات جنم لیتے ہیں جسکے نتیجہ میں کئ قیمتی جانوں کا نقصان ہوجاتا ہے
ایک سال قبل سے ماڑی پور سے سیمنس چورنگی تک کی ایک سڑک بہت بری طرح سے ٹوٹی ہوئی ہے مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔اور کراچی ٹرک اڈاے کی دونوں اطراف کی سڑکیں بہت چھوٹی ہیں اس پرٹرک ڈرائیوروں نے دونوں اطراف کے سڑکوں کی کناروں پر ٹرکوں کی پارکنگ بنا رکھی ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ماڑی پور کےذمہ داران کیوں خاموش ہیں ؟
کیا انھیں یہ سب دکھائی نہیں دیتا؟
یا پیسے کی چمک نے انھیں اندھا کر رکھا ہے؟
حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ جو جگہ نادرن بائی پاس کے قریب کراچی ٹرک اڈہ کے لیے چنی گئی ہے کراچی ٹرک اڈہ کو وہاں جلد ازجلد منتقل کیا جائے اور شہر کے اندر داخلے اور باہر نکلنے کے اوقات کار رات گیارہ بجے سے صبح چھ بجے کے مقرر کئے جائیں ۔ خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیور پر سخت سے سخت کاروائی کی جائے اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔تاکہ عوام کی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہو.

اپنا تبصرہ بھیجیں