چین کی اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی ٹیمز بھیجنے کی تردید
اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک) پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی ٹیمز پاکستان بھیجنے کی خبروں کی تردید کردی۔تفصیلات کے مطابق چینی سفارتخانے کے دو اعلیٰ حکام نے تصدیق کی ہے کہ بیجنگ نے اسلام آباد سے سیکیورٹی ٹیمز بھیجنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا،بیجنگ کے لیے اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔چینی سفارتخانے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگرد پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن ہیں، چین پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر مکمل اعتماد کرتا ہے، اسلام آباد کے اندرونی معاملات اور سیکیورٹی امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔چینی سفارتخانے کے ذرائع نے کہا ہے کہ سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود سی پیک اور بی آر آئی پر کام جاری رہے گا،پاکستان اور چین سیکیورٹی معاملات پر اعلیٰ فورمز پر رابطے میں ہے۔چینی سفارتخانے نے مزید کہا کہ چین پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں چین پاکستان کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے، کوئی دشمن پاکستان اور چین کی دوستی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔واضح رہے کہ دو روز قبل ڈان اخبار میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کو چین نے ایک بڑی سیکیورٹی ناکامی قرار دیا تھا۔پاکستان میں چینی مفادات پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ تھا جس میں پاکستان میں پاور پلانٹ پر کام کرنے والے 2 چینی انجینئرز سمیت 3 افراد ہلاک ہوئے تھے، چینی انجینئرز تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس پہنچے تھے۔بیجنگ نے اپنے شہریوں پر حملے روکنے میں ناکامی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان پر مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔رائٹرز نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی ان مذاکرات سے آگاہ پاکستان کے 5 سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع سے بات ہوئی تھی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ تفصیلات بتائی تھیں۔مذاکرات میں شریک ایک سرکاری اہلکار نے بتایا تھا کہ چین نے ایک بار پھر پاکستان میں اپنی فورس تعینات کرنے پر زور دیا ہے تاہم اسلام آباد نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔اہلکار کے مطابق اس حوالے سے بیجنگ نے اسلام آباد کو تحریری تجویز بھیجی تھی جو پاکستانی ایجنسیوں کو بھیج دی گئی تھی اور وہ اس کا جائزہ لیں گے، اس میں ایک شق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت سیکیورٹی ایجنسیوں اور فوجی دستوں کو انسداد دہشت گردی کے مشنز میں مدد اور مشترکہ حملے کرنے کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین پر بھیجنے کی اجازت دینا شامل ہے۔ایک عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے، مذاکرات کے حوالے سے چین یا پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے پر تو اتفاق کرلیا تھا اور پاکستان کو سیکیورٹی سے متعلق اجلاس میں چینی حکام کی شرکت پر بھی اعتراض نہیں تھا، تاہم، چینی سیکیورٹی فورسز کو پاکستان کے اندر تعینات کرنے کے معاملے پر تاحال اتفاق نہیں ہوا۔مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے بتایا کہ اسلام آباد نے بیجنگ سے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے بجائے انٹیلی جنس اور سرویلنس سسٹم کی بہتری میں مدد فراہم کرے۔چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ وہ مذاکرات سے لاعلم ہیں تاہم پاکستان میں چین کے منصوبوں، اداروں اور شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔تاہم جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے چین کی جانب سے اپنی سیکیورٹی ٹیمز پاکستان بھیجنے کے معاملے کی تردید کردی۔انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا پر چلنے والی خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، پاکستان اور چین کے درمیان انسداد دہشتگردی اور چینی شہریوں کے تحفظ پر ڈائیلاگ ہوتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور چینی شہریوں اور اداروں کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا جب کہ ہم پاکستان اور چین کی دوستی کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔