"ترکوں کے تعلق بلوچ قوم سے”

تحریر: بلاول ساجدی
بلوچ قوم بہادر,دلیر، جرت مند اور مہمان نواز قوم ہے۔ بلوچ قوم اس کائنات میں صدیوں سال سے جہنم لیا ہوا قوم ہے۔ کیونکہ صدیوں پرانی کتابوں میں بلوچ قوم کا ذکر ملتا ہے۔ بلوچ قوم کی رہن سہن اور ثقافت باقی تمام قوموں سے مختلف ہے۔ ایک انگریز مصنف نے اپنی کتاب میں بلوچ قوم کے بارے میں اس جملے کا استعمال کیا "Honored The Baloch” اسکا مطلب یہ ہے کہ بلوچ قوم کو عزت دے کر کام کرواسکتے ہوں۔ یہ بات بلکل درست ہے بلوچ قوم صرف اور صرف عزت کا بھوکا ہے اور دنیا میں کسی بھی چیز کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
1904میں ایک مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے لفظ بلوچ کے معنی ہیں "تاج کروس” جو چھٹی صدی میں بلوچ سپاہیوں کا لوگو تھا۔ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے بلوچ دو لفظوں کا مجموعہ ہے یعنی بل+اوچ بل کے معنی ہے طاقت اور اوچ کے معنی اعلیٰ اسکا پورا مطلب ہے اعلیٰ طاقت والا۔
تاریخ ہندوستان میں بلوچوں کا ذکر یوں آتا ہے کہ ہندوستان کے بادشاہ ناکہ بھتا نے ایک طاقتور فوج کے حملے کو ناکام بنادیا تھا۔اس فوج کا نام "Valacha Mlecchas”لکھا گیا ہے اور "Valacha Mlecchas” کے معنی ہے خاریجی بلوچ یہاں جس فوج کا زکر ہے وہ سندھ فتح کر کے آئی تھی۔ یہ محمد بن قاسم کی فوج تھی۔ جن کا تعلق "حلف”سے تھا۔ آج بھی مکران کوسٹل ہائی وے اگور کے مقام اور سندھ کے مختلف علاقوں میں ان شہداء کی قبریں موجود ہے اور ان میں بہت سی ایسی قبریں ہیں جن میں بلوچی نام درج ہیں۔ زیادہ تر یہ کہا جاتا ہے بلوچ قوم کا تعلق "حلف”سے ہے جو شام میں ہے۔ اور یہ عربوں کے اولاد میں سے ہیں۔ آج بھی بڑی تعداد بلوچوں کی "حلف”میں آباد ہیں۔
مگر اسکی تاریخی شواہد نہیں ملتے ہے کہ بلوچ قوم عربوں کی اولاد میں سے ہیں۔ اور بلوچوں کی ثقافت رہن سہن عربوں سے بلکل بھی نہیں ملتے ہیں۔ لیکن اس بات کی شواہد ملتے ہے کہ بلوچ قوم کا تعلق بحیرہ کیسپیئن کے مشرقی اور جنوب مشرق کے علاقے سے ہیں۔
دنیا ادب کی سب سے بڑی اور سب سے مشہور کتابوں میں سے ایک کتاب "شاھنامہ فردوسی” ہے۔دسویں صدی میں لکھی جانے والی اس کتاب بلوچ قوم کا ذکر ہے۔ اس کتاب کو "بادشاہوں کا کتاب”بھی کہا جاتا ہے۔اس کتاب میں لکھا ہے بلوچ قوم کا تعلق ایران کے شمالی علاقے سے ہے۔تہران بھی ایران کے شمال اور بحیرہ کیسپیئن کے جنوب مشرق میں ہے ایران کا سب سے اونچا پہاڑ بھی تہران میں ہے جس کا نام "کوہ برز”ہے۔بلوچی میں "برز” کے معنی اونچا جبکہ "برز” لفظ فارسی میں موجود نہیں۔اور اسکے علاؤہ ایران میں بہت بڑا صحرا موجود ہے جس کا نام "دشتِ لوٹ”ہے اور لفظ "لوٹ” فارسی زبان میں موجود نہیں ہے اور بلوچی میں "لوٹ” کا مطلب ہے بہت بڑا۔ایران میں ایک اور پہاڑ ہے جس کا نام "الونڈ” ہے۔اس پہاڑ کے بڑے بڑے حصے ہیں۔ بلوچی زبان میں "ونڈ” حصے کو کہتے ہے۔اور ایران کے کسی زبان میں "ونڈ” لفظ نہیں پایا جاتا ہے۔
آج کل پاکستان میں ایک ترکش ڈرامے کا چرچہ چل رہا ہے جس کا نام”ارتغل غازی” ہے۔ اس ڈرامے میں کہیں بلوچی ثقافت کو دکھایا گیا ہے۔ جس طرح بلوچ قوم کا رقص دوچاپی ہے اور ارتغل غازی ڈرامے میں بھی تلواروں کے رقص کو دکھایا گیا جو بلوچی رقص دوچاپی کی طرح ہے بس فرق اس چیز کا ہے بلوچی دوچاپی میں تلوار کا استعمال نہیں ہوتا۔ اور جس طرح بلوچ قوم عورت کی دوپٹہ کا عزت کرتا ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بلوچ مرد کے قدموں میں کوئی عورت اپنا دوپٹہ رکھ دے اور اس سے کوئی بھی بات منوا سکتا ہے۔اور بلکل ایسی طرح ارتغل غازی ڈرامے میں بھی دکھایا گیا ہے۔اور ارتغل غازی ڈرامے میں یہ بھی دیکھایا گیا "قائی”قبیلے میں بلوچ رہتے تھے۔اور "حلف” میں بھی بلوچ کو دکھایا گیا یہاں تک کے "حلف” کے امیر آعلی قدر العزیز کی بہن لیلا کو بلوچی پوشاک پہنا ہوا ہے۔ اور تاریخ سے یہ بھی شواہد ملتے ہے صدیوں سال پہلے "حلف” میں بلوچ آباد تھے۔ اور آج بھی "حلف”میں بلوچ پایا جاتا ہے۔چند سال پہلے کی مردم شماری کے مطابق ترکمانستان میں بلوچوں کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔جو کہ کہیں سے ہجرت کرکے نہیں بلکہ وہاں کے آبائی باشندے ہیں۔ترکمانستان بھی بحیرہ کیسپیئن کے ساحل پر واقع ہے۔
آب یہ بتاتا چلوں کے قائی قبیلے کا تعلق کہاں سے تھا۔ارتعل غازی کا تعلق "ھلت” سے تھا جو کہ بحیرہ کیسپیئن کے مشرق میں ہے یہی انکی جائے پیدائش بھی ہے۔جب بلوچوں نے ایران کی طرف ہجرت کیا تو فارسیوں نے انکو بالاچ کا نام دیا۔بعد میں بالاچ سے تبدیل ہو کر بلوچ ہوگیا۔
آج بھی بلوچوں میں بالاچ نام بہت عام ہے اور پاکستانی ایک پرانے ڈرامے کا ذکر کرتا چلوں جس میں بلوچ قوم کی ثقافت،تہزیب, مہمان نوازی،دوستی اور دشمنی کو دکھایا گیا تھا اور اس ڈرامے کا نام "دشت” تھا جس میں اہم کردار کا نام بھی بالاچ تھا۔آج بھی ایران سے ترکمانستان اور ترکمانستان سے وین جھیل تک آج بھی بلوچ آباد ہے۔ اور یہ کہیں سے ہجرت کر کے نہیں بلکہ صدیوں سال سے وہاں آباد ہے۔
بلوچی لباس میں سب سے اہم بات کریں وہ تین ہے ایک بلوچی پندول ہے پندول کا استعمال بلوچی عورتوں کے پوشاک میں ہوتا ہے اور اردو زبان میں پندول کے معنی جیب کے ہے۔دوسرا بلوچی مردوں کا گیر والا شلوار ہے اور تیسرا بلوچی چاوٹ ہے۔آب میں اپنی تحریر کا اختتام اس اشعار کے ساتھ کرتا ہوں۔
"وہ مائیں ہے خوش نصیب جس نے جہنم دیا اولاد بلوچ کو،
مائیں تپتی دھوپ میں خود جلتے ہے پر پالتے ہے اولاد بلوچ کو”
"سارے باپ دیتے ہے سبق عزت اور غیرت کا اولاد بلوچ کو،
بلاول ایسی لیے دنیا دیتی ہے اعزاذ غیرت اور جرت کا اولاد بلوچ کو”

اپنا تبصرہ بھیجیں