بارشوں سے بلوچستان میں تباہ کاریاں

تحریر: بلاول ساجدی
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اسکے دو شہر سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ایک کوئٹہ اور دوسرا گوادر ہے۔کوئٹہ بلوچستان کا درالحکومت ہے۔اور ایک بڑا کاروباری اور تجارتی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی شہر بھی ہے۔
بلوچستان کا دوسرا مشہور ترین شہر گوادر ہے۔جو کچھ برسوں سے بہت زیادہ مشہور ہوا ہے۔کیونکہ وہ آنے والے وقتوں کا بہت زیادہ مصروف ترین شہر ہونے والا ہے۔
کراچی سے کوئٹہ شہر کا فاصلہ تقریباً ۷۰۰ کلومیٹر کا ہے۔ کراچی ٹو کوئٹہ ہائی وے 25۔N کے نام سے مشہور ہے۔یہ ہائی وے سنگل روڈ ہائی وے بنا ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آتا ہے۔لوگوں کو قیمتی جانوں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اسوقت میں بتاتا چلوں کے بارش کے باعث بولان ندی اور اس شاہراہِ کے مختلف ندیوں میں پانی کا دباؤ بڑھ جانے سے کہیں جگہوں پر "پل”ٹوٹ گئے ہے۔اور مختلف جگہوں سے یہ شاہراہ بہت بری طرح سے متاثر ہو چکا ہے-
بلکل اسی طرح کا صورتحال گوادر ٹو کراچی ہائی وے کا بھی ہے۔کراچی ٹو گوادر ہائی وے مکران کوسٹل وے کے نام سے مشہور ہے۔یہ ہائی وے سی پیک کا حصہ ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ہائی وے کو بنے ہوئے کئی سال گزر گئے ہے مگر اسکو ڈبل روڈ ہائی وے بنانے کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں ہے۔اس وقت بارشوں کے سبب یہ ہائی وے بہت متاثر ہوا ہے۔اس ہائی وے پر بھی بدوک کے مقام پر سیلابی ریلے کے باعث بدوک ندی کا پل ٹوٹ گیا۔اور چند سال پہلے بارشوں کے باعث سربندر کے قریب کا پل ٹوٹ گیا تھا۔ایسا وقت نہیں ہے کہ جب مون سون کی بارشوں میں مکران کوسٹل ہائی وے متاثر نہ ہو۔
اور میں بتاتا چلوں کہ اس ہائی وے کے مناظر بہت دلچسپ ہے۔اس ہائی وے پر گاڑی چلانے کا اپنا ہی ایک الگ مزہ ہے۔مگر یہ ہائی وے جتنا دلچسپ ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔کیونکہ اس ہائی وے کو زمین سے زیادہ اونچا کرکے نہیں بنایا گیا ہے۔اسکے دونوں اطراف بنجر زمینیں ہے۔اور ہوا کے وجہ سے ریت کے بڑے بڑے ٹھیلے ہائی وے پر آجاتے ہیں اور یہ بہت بڑے حادثے کے سبب بنتے ہیں۔
اور دوسری بات رات کے وقت اس ہائی وے پر سفر کرنا نہایت مشکل ترین کام ہے خاص طور پر گاڑی چلانے والے کے لیے کیونکہ مسافر کوچ والے ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیوں کے سب سرچ لائٹ کھولتے ہیں جو سامنے والے ڈرائیور کے آنکھوں پے لگتی جسکو کچھ نظر نہیں آتا ہے
تیسری بات کراچی زیرو پوائنٹ سے پسنی زیرو پوائنٹ تک اس ہائی وے پر موٹر وے پولیس کا کوئی سہولت موجود نہیں۔کوئی اسپیڈ لمٹ کی محدود حد نہیں ہے۔موٹر وے پولیس کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جس کا دل جیسا چاہیں گا وہ اس رفتار سے گاڑی کو چلاتا ہے۔
مکران کوسٹل ہائی وے اور 25-N ہائی وے دونوں میں لائٹنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔دونوں ہائی وے رات کے وقت مکمل اندھیرے ہیں۔صرف گاڑیوں کے لائٹ نظر آتے ہیں۔
مکران کوسٹل ہائی وے کے سفر کے لیے جاتے وقت بھی ٹول ٹیکس زیرو پوائنٹ کے مقام پر ادا کرنا پڑتا ہے اور آتے وقت بھی۔سلانہ ٹول ٹیکس سے ایک اچھی خاصی رقم حکومتی خزانے میں جمع ہو جاتا ہے۔مگر افسوس حکومت دنوں ہائی وے پر ترقیاتی کام نہیں کرواتا ہے
آب بات کرتا ہوں ندیوں کے پل ٹوٹنے کا یہ تو لازماً بات ہے جب پانی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو وہ زور مرتا ہے اسکے سامنے کچھ بھی آجائیں وہ ساتھ بہے کر لے جاتا ہے۔بلوچستان میں ویسے پانی کی شدید قلّت ہوتا ہے مگر جب بارشیں ہوتی ہے تو پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائیں اس سے بہت سارے فائدے حاصل ہونگے۔بلوچستان کے شاہراہِ ذیادہ متاثر نہیں ہونگے۔ندیوں کے پل ٹوٹنے کے خدشے کم ہونگے۔پانی کی قلت کافی حد تک ختم ہو جائے گا۔اور جب ڈیم بنے گئے اس سے بجلی پیدا کرنے کی سہولیات بھی میسر ہو گا۔
میری درخواست ہے بلوچستان حکومت اور بلوچستان کی دیگر سیاسی تنظیموں کے لوگوں سے وہ وفاقی حکومت کو ان باتوں سے آگاہ کریں اور یہ کام کروائے ۔بلوچستان کے عوام کو ہر سال بارشوں کی تباہکاریوں سے بچائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں