بے حسی کب تک؟

تحریر :قدیر بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا اور بالامآخر خواب خرگوش میں سوئے حکمران وزیراعلیٰ جام کمال نے طلباء کی آواز کو سن ہی لیا اور ٹوئیٹر پر ٹوئیٹ کے ذریعے نوٹس بھی لیا مگر تاحال حکومت کی طرف سے عملی طور پر ایسے کوئی اقدام نہیں اٹھائے گئےجس سے مطالبات حل ہوتے دکھائی دیں.

بقول مارٹی
‘کہنے’ کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے
بہرحال ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ جام صاحب اس مرحلے پر طلباء کو سبز باغ دکھا کر اب پیچھے نہیں ہٹیں گے
مگر صد افسوس کہ پنجاب کے اختیار دار بھی بزدار وزیراعلی ہیں انہیں بار بار یادآوری کروانے کے باوجود، حتی کہ ملتان میں  احتجاجی کیمپ سے چند میٹر کے فاصلے پر قیام کے دوران بھی انہجں طلباء نظر نہیں آئے.

جب صاحب اپنے حلقے میں آکر خوبصورت کہانیاں سناتے ہیں کہ لاہور میں وزیراعلی کی سیٹ پر بیٹھا شخص عثمان نہیں بلکہ تم لوگ (عوام) تو میں اپنے سر پیٹنے لگتا ہوں کہ پنجاب کا وزیراعلی ہوتے ہوئے بھی میں جانوروں کے ساتھ پانی پیتا ہوں,تعلیم ہو یا صحت کی صورتحال میری بے بسی کی داستانیں ہیں مجھے وسائل کے بارے میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں وسائل کی بات درکنار میں تو ایک ماہ سے ملتان کی سڑکوں پر آٹھ سیٹوں کیلئے وزیراعلی ہوکر بھی تکلیفیں سہہ رہا ہوں

محترم وزیراعلی صاحب یاد رکھیں
‘کہنے’ کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے
جب عثمان بزدارصاحب بلوچستان جاتے ہیں تو بلوچستان کے لوگوں کیلئے خود کو مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بھولے سے بھی 33 دن سے دھرنے پر بیٹھےاحتجاجی طلباء کی طرف دھیان نہیں جاتا مگر پھر بھی سردار صاحب کے چاہنے والے بضد ہیں کچھ نہ کہا جائے

مگر بلوچ طلباء کو کہنے دیجیے
وزیراعلی صاحب!
‘کہنے’ کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے
خیر سرداران کی قوم دوستی و تعلیم دوستی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے میر یوسف کی مایوسی سے بی اے قریشی کی آفیشل ڈیکلیریشن میں لکھے گئے الفاظ تک سرداروں کے دستاروں پر دھبوں کا ایک انمٹ سلسلہ ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ان داغوں کو دھونے کی کوشش انجانے میں بھی نہیں

اس احتجاجی کیمپ نے ریاستی ترجیحات کا پول کھول دیا ہے کہ ریاست کس قدر اپنے شہریوں کو تعلیم دینے میں سنجیدہ ہے اس کیلئے کاسترو سا دماغ چاہئیے جس کی ڈائری کا پسندیدہ پیراگراف”میں نے جبر کی چھاؤنیوں کے اوپر آزادی کے شعلے جلتے دیکھے ایک روز ان کی راکھ پر ہم سکولیں کھڑی کریں گے” اور اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا مگر ہمارے حاکم تبدیلی کے نعرے لگا کربلوچ طلباء سے قلم چھیننے کی کوشش کررہے ہیں.

تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ کرنے والوں سے بس یہی پوچھنا ہے کہ کیا بلوچ طلباء کی سو ڈیڑھ سو سیٹیوں کیلئے آپ کے پاس پیسہ نہیں یا بلوچ نوجوانوں کو تعلیم دینا نہیں چاہتے؟اگر تعلیم نہیں دے سکتے تو بلند و بانگ دعوے بھی نہ کریں کیونکہ بقول مارٹی
‘کہنے’ کا بہترین طریقہ ‘کرنا’ ہے

مطالبات کی منظوری میں دیر کا مطلب دراصل مطالبات کی منظوری سے انکار ہے کیونکہ محض تین روز بعد 6 تاریخ سے یونیورسٹی میں کلاسوں کا آغاز ہونے جا رہا ہے تو ایسے میں احتجاجی کیمپ میں 33 دنوں سے سراپااحتجاج طلباء لامحالہ مایوس ہوں گے جس کے منفی اثرات کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہوگا جو خاموش رہا بے حسی کی تصویر بن کر تماشا دیکھتا رہا مگر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ بلوچ طلباء اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کیلئے ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں