عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس پر تیگرائی باغیوں کی حمایت کا الزام

ایتھوپیائی فوج کے سربراہ نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریاسس پرباغی علاقے تیگرائی کے رہنماوں کی حمایت کرنے اور ہتھیاروں کی خریداری میں مدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایتھوپیا کے فوجی سربراہ بیرہانو جولا نے کہا ہے کہ تیگرائی سے تعلق رکھنے والے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریاسس نے ٹیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کی حمایت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تیگرائی خطے کو ہتھیاروں کے حصول میں بھر پور مدد کی۔ جولا نے تاہم ان الزامات کے سلسلے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔

آرمی چیف آف اسٹاف جنرل بیرہانو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیڈروس نے ٹیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کی مدد کرنے میں ”کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی”، جس پارٹی کے خلاف ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطے میں فوجی مہم کو نشانہ بنا رہی ہے۔ا نہوں نے مزید کہا ”یہ شخص اس گروپ کا رکن ہے اور ان کی مدد کے لیے ہرممکن اقدامات کر رہا ہے۔”

ایتھوپیا کے آرمی چیف نے تاہم ٹی پی ایل ایف کے ساتھ ٹیڈروس کے تعلق کے علاوہ، جس کا سب کو علم ہے، اپنے الزامات کے سلسلے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔

جنرل بیرہانو نے مزید کہا”آپ ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ ہمیں ان سے توقع نہیں ہے کہ وہ ایتھوپیا کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور مخالفین کی مذمت کریں گے کیونکہ وہ ان کی حمایت میں سب کچھ کر رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک میں جنگ کی مذمت کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔”ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس نے فی الحال ان الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

خیال رہے کہ 55 سالہ ٹیڈروس کا تعلق ایتھوپیا کے تیگرائی علاقے سے ہے۔ وہ ٹی پی ایل ایف کی سربراہی میں قائم ہونے والی سابق قومی حکومت میں وزیر صحت رہ چکے ہیں۔ وہ پہلے افریقی ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت کا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا۔ مئی 2017 میں ڈبلیو ایچ او کا سربراہ بننے کے بعد انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی اور کورونا وائرس وبا کے حوالے سے ان کے کام کو سراہا گیا۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس کے خلاف یہ الزامات ایسے وقت عائد کیے گئے ہیں جب ایتھوپیائی حکومت نے کہا ہے کہ اس ہفتے تصادم شروع ہونے کے بعد سے باغیوں نے ‘سنگین جرائم‘ کا ارتکاب کیا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 30000 سے زائد افراد کو پڑوسی ملک سوڈان کو ہجرت کرنی پڑی ہے۔

ایتھوپیائی حکومت نے اپنی رپورٹ میں مائی کدرا قصبے میں نسلی ہلاکتوں کے واقعات کا بھی حوالہ دیا ہے جس کا ذکر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ہفتے اپنی رپورٹ میں کیا تھا۔

مبینہ حملے کے متاثرین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اہلکاروں کو بتایا تھا کہ مقامی تیگرائی حکومت سے وابستہ ملیشیا نے درجنوں بلکہ سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کردیا ہے۔ان میں سے بعض امہارا نسل سے تعلق رکھنے والے تھے۔

دریں اثنا امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کے خارجہ پالیسی کے مشیر انٹونی بلینکین نے فریقین سے لڑائی روکنے اور خطے میں شہریوں کے حفاظت کرنے کی اپیل کی ہے۔

انٹونی بلینکین نے ٹوئٹر پر لکھا”انہیں ایتھوپیا میں انسانی بحران، نسلی تشدد کے واقعات اورعلاقائی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات سے متعلق خبروں پر گہری تشویش ہے۔” انہوں نے مزید لکھا ہے”ٹی پی ایل ایف اور ایتھوپیائی حکام کو تصادم ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ انسانی وسائل تک رسائی اور شہریوں کی حفاظت ہوسکے۔”

خیال رہے کہ ایتھوپیا میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ اتوار کو بینی شانگل۔گمز کے علاقے میں بندوق برداروں نے ایک بس پر حملہ کرکے 34 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

ایتھوپیا کی وفاقی حکومت نے پچھلے دو برسوں کے دوران متعدد ایسی اصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے تیگرائی کی علاقائی حکومت الگ تھلگ پڑ گئی ہے۔ تیگرائی کے حکام کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش کررہی ہے۔

2018میں آبے احمد کے ملک کا اقتدار سنبھالنے سے قبل تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ پارٹی (ٹی پی ایل ایف) کی قیادت میں تیگرائیوں کا ایتھوپیا کی فوج اور سیاست پر دہائیوں تک غلبہ تھا۔آبے احمد نے حکمراں اتحاد کو ختم کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک واحد قومی جماعت میں ضم کردیا تاہم ٹی پی ایل ایف نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

ستمبر میں کشیدگی میں اس وقت مزیدا ضافہ ہوگیا جب تیگرائی نے کورونا وائرس کی وبا کے سبب انتخابات پر عائد ملک گیر پابندی کو ماننے سے انکار کردیا۔ آبے حکومت نے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں