ترقی کا پیمانہ

تحریر: جمشید حسنی
کہتے ہیں ترقی ہورہی ہے لاہور میں اورنج ٹرین چلی5ارب آمدن 23ارب اخراجات ہوں گے کہتے ہیں اس سے سینکڑوں عوامی بھلائی کی ترقیاتی اسکیمیں مکمل ہوسکتی تھیں پھر میٹرو بس ہے آمدن سے اخراجات اربوں زیادہ ہی ہماری ترقی کا معیار ہے حکومت عادم آدمی سے تیل کی قیمت کے برابر لیوی /ٹیکس وصول کرتی ہے گیس بجلی کے نرخ بڑھتے رہتے ہیں۔25ہزاربرآمدی چینی چینی کراچی پہنچ گئی تینلاکھ ٹن روسی گندم آئے گی ساڑھے تین لاکھ ٹن مزید آئیگی پنجاب 15لاکھ ٹن چینی خریدے گا۔قیمت خرید کیا ہوگی قیمت فروخت کیا ہوگی یہ نہ پوچھیں گندم کا نرخ 2سو روپیہ من بڑھا دیا گیا ہے اب 1600روپیہ من ہوگا دوسری طرف کروڑوں آمدنی ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے بتلایا کہ گزشتہ تین سال میں اس کی آمدن پانچ کروڑ34لاکھ رہی بیروز گاری ہے ریڈیو پاکستان سے749ملازمین کو برطرف کردیا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے انتخابات ہیں مارچ میں سینیٹ کے انتخابات گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت زیر بحث ہے پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا ہم گرے لسٹ سے نکل بھی جائیں تو کیا برآمدات بڑھ جائینگی زرمبادلہ بڑھا جائے گا روز گار بڑھے گا فی کس آمدن قومی پیداوار بڑھے گی سی پیک کا بخار بھی ٹوٹ گیا ہے ملک بیرونی قرضوں کی لپیٹ میں ہے مہنگائی ہے افراط زر ہے بلوچستان کو کچھ نہیں ملا کوئٹہ میں چوراہوں پر حکومتی ترقیاتی پروگرام کے پر چار والے بینرز دیکھیں۔معلوم نہیں ترقی کا تصور کیا ہے پندرہ ہزار لوگ صوبہ میں کرونا میں مبتلا ہیں ملک میں چوبیس گھنٹوں میں کرونا سے 264اموات ہوئیں 6727افراد مرچکے ہیں مانا کرونا عالمی وباء ہے مگر غریب ممالک پر اس کے منفی معاشی اثرات بہت زیادہ ہیں۔کپاس کی فصل 65لاکھ گاٹھ کم ہوئی ہے سعودی عرب کا کرایہ64ہزار ہے حکومت 14ہزار ٹیکس لیتی ہے یہی حال اندرون ملک پر وازوں پر ٹیکس کا ہے بجلی،گیس تیل کا نرخ بڑھ رہے ہیں۔
حزب اختلاف کہتی ہے حکومت جائے حکومت جائے بھی کو حزب اختلاف کے پاس ایسا کیا چھو منتر ہے معاملات معاشی ہیں باتیں کرنا آسان عمران خان نے بھی تو کہا تھا۔ریاست مدینہ میں پچاس لاکھ گھر بنیں گے ایک کروڑ نوکریاں دیں گے ریاست مدینہ میں ٹائیگر فورس نہ تھی نہ پچاس وزیروں کی کابینہ مراعات اور بلٹ پروف گاڑیاں تھیں جہاد کے لئے لوگ اپنا تیر کمان تلوار نیزے لاتے۔پشاور بی آر ٹی پھر بس راستے میں خراب کہتے ہیں معمول کا ٹینکی نقص ہے۔حکومت کہتی ہے اویس نورانی نے بلوچستان کے علیحدگی کی بات کی ہمارے تو کسی لیڈر ڈاکٹر مالک،اختر مینگل،محمود اچکزئی یا مولوی نے کچھ نہیں کہا۔اردو والے کہتے ہیں محمود خان نے اردو کو رابطے کی زبان کہا آخر اس میں گناہ کیا ہے ہم نے اردو بنگالیوں پر مسلط کی رابندرناتھ ٹیگورنوبل انعام یافتہ بنگالی شاعر تھے۔ہمیں اردو سیکھنے اور اس کے قومی زبان ہونے پر اعتراض نہیں مگر علاقائی ثقافتوں زبانوں تہذیبوں کی ترقی ہے تو روسی انقلاب بھی انکاری نہیں ہوا۔انقلاب اقلیتوں کے حقوق ہے پابندی اٹھاتی ہے قوم کے افراد ہیں اشتراک زبان اشتراک ارض اشتراک معاشی نفسیات قومی کردار کے لئے ہونا ضروری ہے۔
آج کتنے فیصد اردو دان پنجابی سندھی پشتو بلوچی براہوئی گلگتی سرائیکی جانتے ہیں وہ خود کو زیادہ مہذب کہتے ہیں۔میں نے تو پھر بھی اردو سیکھی ہے ہم نفسیاتی طور ایک نہ ہوسکے ایک دوسرے کی ثقافت کو قبول نہ کیا عصبیت لسانیت فرقہ واریت کو جان بوجھ کر سیاست میں گھسیٹا گیا محمدعلی جناح اردو نہیں جانتے تھے تو کیا ہوا۔آج مہاجر خود کو پانچویں قومیت کہتی ہے۔علیحدہ صوبہ مانگتی ہے حالانکہ صوبہ کی دھرتی پر وہ قیام پاکستان کے بعد آکر آباد ہوا کیا پھر دوسرے صوبوں کے لوگ کراچی سے نکل جائیں ہمیں محروم طبقات کو اٹھانا ہوگا وسائل کی برابر تقسیم کرنی ہوگی قومی آزادی کا بنیادی فلسفہ مساوات عزت نفس ہوتا ہے۔
فرانس میں توہین رسالت اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر عالم اسلام سراپا احتجاج ہے نائیجریا میں فسادات ہیں 69افراد پولی کے ہاتوں مارے جا چکے ہیں ہانگ کانگ چھ ماہ سے مظاہرہ تھائی لینڈ میں وزیراعظم کی برطرفی کے لئے مظاہرے ہیں پولینڈ میں اسقاط حمل کے معاملہ میں مظاہرے ہے ہمارے ہاں حزب اختلاف تین شہروں گوجرانوالہ کراچی کوئٹہ میں مظاہرے۔
کہتے ہیں پارلیمنٹ سے استعفے دیں گے شاید اور بھی جلسے ہوں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت زیر بحث ہے مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہوں گے کتنے شفاف ہوں گے آزمودہ راچہ آز مودن۔
نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم
وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں