کچھ ہونی کچھ انہونی

تحریر: انورساجدی
ہزارہ برادری کے11کانکنوں کابہیمانہ قتل سابقہ واقعات کا تسلسل معلوم ہوتا ہے جب سے بلوچستان ایک میدان جنگ یا وارزون میں تبدیل ہوا ہے خرابی ئ حالات کا فائدہ خطہ کے دیگر انتہا پسند گروہوں نے کئی بار اٹھایا ہے سانحہ مچھ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ بار بار تردید کرچکی ہے کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے چند سال قبل مستونگ کے علاقے میں ایک چینی جوڑے کو ذبح کیا گیا تھا اس کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی جبکہ کابل اور گردونواح کے علاقوں میں ہزارہ برادری کی عبادت گاہوں،تعلیمی اداروں اور سوشل مراکز کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا ہے ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ15 سالوں کے عرصہ میں کسی مرکزی اورصوبائی حکومت یہ کھوج لگانے میں ناکام رہی ہے کہ ”ہزارہ برادری کیوں ٹارگٹ“ ہے اگر اہل تشیع ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے تو اسی مسلک کے دیگر لوگ کیوں ان حملوں سے محفوظ ہیں یہ ایساسوال ہے کہ آج تک اس کا جواب نہیں آسکا۔
پاکستان بالخصوص بلوچستان اور فاٹا کے حالات کی خرابی کے کئی فیکٹر ہیں جب افغانستان غیر ملکی حملوں اور خانہ جنگی کا شکار تھا تو پاکستان کی انتظامیہ نے طالبان کاساتھ دیا تھا سوویت حملوں کے بعد تو50لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا گیا تھا زمانہ ہوا سوویت یونین خود تحلیل ہوگیا امریکی حملے بھی ختم ہوگئے افغانستان پرکافی عرصہ سے سویلین حکومت کام کررہی ہے لیکن افغان مہاجرین واپس نہیں گئے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے لئے مسائل اس لئے پیدا ہوئے کہ اس نے جانبدارانہ پالیسی اپنائی اگر وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا تو اسے اتنی بڑی تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا امریکہ اتحادی ہونے کے باوجود بارہا یہ الزام لگاچکا کہ طالبان کی شوریٰ کاہیڈکوارٹر کوئٹہ میں ہے طالبان کے کم از کم دوسربراہ بلوچستان میں فوت ہوئے امریکہ بارہا کہتا رہا ہے کہ حقانی گروپ طالبان کا پسندیدہ گروپ ہے جبکہ کچھ طالبان ناپسندیدہ ہیں کسی زمانے میں افغانستان پرالزام عائد کیاجاتا تھا کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کو پناہ اور تربیت دیتا ہے اور وہ وہاں سے آکر امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان الزامات میں صداقت ہو لیکن آج تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لایاجاسکا ہر حکومت اور اسکے ذمہ داروں نے محض لفاظی سے کام لیا۔
ریاستی اداروں کی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہر واقعہ اور سانحہ کے بعد تحقیقات کاحکم دیا جاتا ہے اس لئے ان محرکات کا پتہ نہیں چلتا جو ان سانحات کے باعث بنے ہیں اس ملک کی تاریخ کاسب سے بڑا سانحہ 16دسمبر2014ء رونما ہونیوالا اے پی ایس پشاور پر حملہ ہے جس میں متعدد بچے مارے گئے مجھے یاد نہیں کہ اس کی عدالتی تحقیقات کا نتیجہ سامنے لایا گیا ہو بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ہر واقعہ کے بعد نوٹس لینے اورتحقیقات کا حکم دیاجاتا ہے تاکہ لوگ رفتہ رفتہ سانحہ کو بھول جائیں اسکے بعد نئے سانحہ کے جنم لینے تک خاموشی اختیار کی جاتی ہے شائد دنیا میں اور بھی اس طرح کی ریاستیں ہوں جو اپنے جگرگوشوں اور مظلوم عوام کے قتل عام پر اس طرح کی لاپروائی کارویہ اختیار کریں لیکن پاکستان کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔
جب حکمرانوں نے خود اپنے ملک کو ”کنفلکٹ“ زون میں تبدیل کردیا ہے تو اور کوئی کیا کرسکتا ہے کافی عرصہ سے دعویٰ کیاجارہا تھا کہ وزیرستان محفوظ ہوگیا ہے لیکن کہاں وہاں پر بھی آئے دن واقعات ہوتے رہتے ہیں حکومت جتنا زور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی گرفتاری اوردبانے پرلگاتی ہے اگر اتنا زوردہشت گردوں کے خلاف لگاتی اسکے مثبت نتائج ضرور برآمد ہوتے۔
گزشتہ سال حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کی قیادت سے مذاکرات کررہی ہے لیکن یہ مذاکرات اچانک معدوم ہوگئے اور طاقت کااستعمال زور پکڑ گیا۔
ایم این اے علی وزیر کو گرفتار سندھ پولیس نے پشتونخوا جاکر کیا سندھ حکومت کی لاعلمی اور بے بسی کا یہ حال ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس گرفتاری کی مذمت کی تب انہیں بتایا گیا کہ یہ گرفتاری تو سندھ پولیس کے ہاتھوں ہوئی ہے اسکے بعد سے مسٹر بلاول خاموش ہیں۔
اب جبکہ امریکہ میں نئے صدرآنے والے ہیں تو پتہ چلے گا کہ ان کی افغان پالیسی کیا ہوگی؟اگر انہوں نے اپنی افواج کا انخلا روک دیا تو بھی افغانستان کے حالات خراب ہونگے اور جلد انخلا کا فیصلہ کیا تو بھی یہ بدقسمت ملک دوبارہ خانہ جنگی کاشکار ہوجائے گا خدا کرے کہ افغانستان میں خونی کھیل بند ہوجائے ورنہ مزید مہاجرین پاکستان آئیں گے اور کوئٹہ شوریٰ زیادہ زور لگائے گی یہ بات طے ہے کہ جب تک افغانستان میں مستقل امن قائم نہیں ہوگا پاکستان اور بالخصوص پشتونخوا اور بلوچستان میں امن نہیں آسکتا۔
افغان فیکٹر تو اپنی جگہ ماضی میں ایران فیکٹر بھی کارفرما رہا ہے بدقسمتی سے دونوں پڑوسی ممالک سے تعلقات دوستانہ نہیں بلکہ کشیدہ ہیں اور برسوں سے ان سے دوستی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو بین الاقوامی تعلقات کی اہمیت کااندازہ نہیں ہے کسی زمانے میں سعودی عرب اور یواے دوست ہوا کرتے تھے لیکن ان سے تعلق بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
سابق آقاء برطانیہ عظمیٰ سے تعلقات کایہہ حال ہے کہ حکومت کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف امریکی فرم براڈشیٹ کوبھاری جرمانہ ادا کردیا گیا ہے بلکہ لندن ہائی کورٹ نے نوازشریف کی رہائش گاہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ بھی واگزارکردیئے ہیں اب یہ جائیداد مکمل طور پر اپنے مالک نوازشریف کی دوبارہ ملکیت میں آگئی ہے اس پر نوازشریف مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہی فلیٹوں کی وجہ سے انہوں نے اپنا سارا سیاسی مستقبل داؤ پر لگادیا تھا ہمارے تجربہ کار بلکہ بزرگ وزیرداخلہ نے اعلان کیا ہے کہ16فروری کو نوازشریف کا پاسپورٹ منسوخ کردیا جائیگا اگر ایسا کیا گیا تو خود بخود ثابت ہوجائیگا کہ نوازشریف انتقامی کارروائیوں کا شکار ہیں اور وطن واپسی پر ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے یہ تو معلوم نہیں کہ نوازشریف لندن کی حکومت اور عدالتوں میں کس طرح کا مقدمہ لڑیں گے لیکن یہ طے ہے کہ عمران خان کے تھوڑی پر ہاتھ لگانے کے باوجود حکومت انکو انکی مرضی کیخلاف واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔
حکومت جتنا زورلگارہی ہے ملک کے اندرنوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے حکومتی وزیر گزیر اور مشیر صرف ٹی وی پر بیانات داغ رہے ہیں وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ عوام کا سامنا کرسکیں اگر یہ لوگ کسی ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے تو انکو اپنی حقیقت کا معلوم ہوجائے گا۔
جہاں تک پی ڈی ایم کی تحریک کا تعلق ہے تو اس سے پیپلزپارٹی عملی طور پر الگ ہوگئی ہے اگرچہ اس نے باقی جماعتوں کو بھی ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر قائل کرلیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسٹر زرداری مولانا اور مریم نواز کی سیاسی کمیسٹری نہیں ملتی اس لئے پی ڈی ایم کی قیادت مجبور ہے کہ اپنا لانگ مارچ سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک لے جائے مارچ تک کیاکچھ ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا البتہ سانحہ مچھ کے بعد فرقہ وارانہ دہشت گردی میں اضافہ کاامکان پیدا ہوگیا ہے اگر کوئی انہونی ہوگئی تو سارے معاملات تتر بتر ہوجائیں گے اگر2014ء کوسانحہ اے پی ایس نہ ہوتا تو عمران خان کو2018ء تک اپنا دھرنا جاری رکھنا پڑتا حکومت خوش ہے کہ جنوری فروری میں سخت سردی دھرنوں کیلئے موافق نہیں ہے اسے امید ہے کہ اس کے بعد بھی اس کے حق میں معجزات رونما ہوتے رہیں گے جو پی ڈی ایم کی تحریک کو پیچھے دھکیل دیں گے۔
تحریک انصاف کیلئے غیبی امداد کس طرف سے اور کہاں سے آئے گی یہ وہ بھی نہیں جانتے لیکن امید لگائے رکھنا اور مایوس نہ ہونا ہر ایک کاحق ہے حالانکہ مکمل حالات میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہیں ریاست بدستور وارزون رہے گا یہاں داخلی اور خارجی قوتیں کارفرمارہیں گی حکومت کسی خاص حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب نہیں ہوگی۔خدا کرے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں جس سے معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔
بلوچستان میں جو لوگ مارے جارہے ہیں ان کی خیر انہیں کب پاکستان کے باشندے سمجھا جارہا ہے پورے بلوچستان میں انسانی حقوق ناپید ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی کم اور آواز اتنی مدہم ہے کہ باقی ملک کے لوگ یہ سننے کوتیار نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں